بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

چالیس دن کے بعد ناخن تھوڑے سے چھوٹے کرنا


سوال

چالیس دن کے بعد لڑکی اگر ناخن تھوڑے سے چھوٹے کر دے تو اس میں نماز ہو سکتی ہے ؟

جواب

دینِ اسلام انسان کی صفائی ستھرائی کی خاص تاکید کرتا ہے اور ناخن کاٹنے کو احادیثِ مطہرہ میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے جو فطرتِ سلیمہ کے تقاضے قرار دیے گئے ہیں، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پانچ امور فطرت کے مطابق ہیں: ختنہ ، زیرِ ناف بالوں کی صفائی ، بغل کے بال لینا،ناخن کاٹنا اور  مونچھیں تراشنا۔ نیز صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے اس کی زیادہ سے زیادہ حد چالیس دن بتائی گئی ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ ہر ہفتہ ناخن کاٹے جائیں ورنہ ہر پندرہ دن میں کاٹ لیے جائیں۔

ناخن کے بارے میں احادیث میں "تقليم"اور " قص"وغیرہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں  جس کا معنی کاٹنے کے ہیں، شارحین نے اس کی یہ مراد بیان فرمائی ہے کہ انگلیوں کے سِروں کے اوپر ناخن کا جتنا حصہ ہو اسے کاٹا جائے،کیوں کہ اگر اسے نہ کاٹا گیا تو وہاں میل جمع ہوتا ہے کہ جو بڑھ کر اس حد تک پہنچ سکتا ہے کہ طہارت (وضو، غسل) میں انگلیوں کی جلد تک پانی پہنچنے سے حائل ہو جائے  اور مستحب اسی کو فرمایا ہے کہ اس قدر ناخن کاٹ لیے جائیں کہ جس سے انگلیوں میں تکلیف محسوس نہ ہو۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ چالیس دن کے بعد ناخن  تھوڑے سے چھوڑ دینے کا طریقہ درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی نے اس طرح کیا ہو تو نماز ادا ہو جائے گی۔

صحیح بخاری میں ہے:

"5889 - حدثنا ‌علي : حدثنا ‌سفيان قال ‌الزهري حدثنا عن ‌سعيد بن المسيب، عن ‌أبي هريرة رواية: الفطرة خمس، أو خمس من الفطرة: الختان، والاستحداد، ونتف الإبط، وتقليم الأظفار، وقص الشارب".

(كتاب اللباس، باب قص الشارب، 7/ 160 ط :المطبعة الكبرى الأميرية)

صحیح مسلم میں ہے:

"51 - (258) حدثنا ‌يحيى بن يحيى، ‌وقتيبة بن سعيد كلاهما عن ‌جعفر . قال يحيى: أخبرنا جعفر بن سليمان، عن ‌أبي عمران الجوني ، عن ‌أنس بن مالك قال: قال أنس: « وقت لنا في قص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وحلق العانة أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة »."

(‌‌‌‌كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 1/ 153 ط : دار الطباعة العامرة)

فتح الباری میں ہے:

"قوله وتقليم الأظفار وهو تفعيل من القلم وهو القطع... والمراد إزالة ما يزيد على ما يلابس رأس الإصبع من الظفر لأن الوسخ يجتمع فيه فيستقذر وقد ينتهي إلى حد يمنع من وصول الماء إلى ما يجب غسله في الطهارة...ويستحب الاستقصاء في إزالتها إلى حد لا يدخل منه ضرر على الأصبع واستحب أحمد للمسافر أن يبقي شيئا لحاجته إلى الاستعانة لذلك غالبا".

(‌‌كتاب اللباس، باب قص الشارب، 10/ 344، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101188

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں