مسجد کے لیے ایک پلاٹ بارہ تیرہ مرلے وقف ہے،لیکن منتظم صاحب نے اس پلاٹ کے سامنے ایک اور پلاٹ خریدا ہے مسجد کے لیے، ان دونوں پلاٹوں کے درمیان 18 ،19 فٹ کا نالہ ہے،اب منتظم صاحب محلے والوں کے مشورے سے اس نالے پر لینٹر ڈال کر آمنے سامنے کے دونوں پلاٹوں کو ملا کر ایک کر کے کشادہ مسجد بنانا چاہتے ہیں۔
پوچھنا یہ تھاکہ نالے پر لینٹر ڈال کر مسجد بنانا صحیح ہے؟کیا یہ مسجد شرعی مسجد ہو گی؟ کیا کسی عذر کی بنا پرنالے پر مسجد بنا سکتے ہیں؟
واضح رہے کہ نالہ سرکار کی ملکیت ہے،اسی لیے اس پر ڈینٹر ڈال کر مسجد بنانا درست نہیں ،بلکہ حکومت سے اجازت لے کر پھر اس کے اوپر مسجد بنائی جائے ،عذر کی بنا پر نالہ پر مسجد بنانا سرکار کی اجازت سے درست ہے، وگرنہ نہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أرض وقف على مسجد والأرض بجنب ذلك المسجد وأرادوا أن يزيدوا في المسجد شيئا من الأرض جاز لكن يرفعوا الأمر إلى القاضي ليأذن لهم."
(كتاب الوقف، ج:2، ص:456، ط:دار الفكر)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"أن للإمام ولاية الإقطاع فيما ليس بملك لإنسان بعينه؛ لأن ما كان الحق فيه لعامة المسلمين فالتدبير فيه إلى الإمام، وله أن يخص بعضهم بشيء من ذلك على حسب ما يرى."
(كتاب المزارعة، ج:23، ص:10، ط:دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"وبما في الزيلعي من أن للإمام ولاية عامة، وله أن يتصرف في مصالح المسلمين."
(كتاب الجهاد، ج:4، ص:182، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502101897
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن