بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں دھیان اور اعمال و افعال میں استقامت پیدا ہونے کے لیے چند اعمال


سوال

1۔ نماز کےاندر دھیان نہیں لگ رہا ہے، کیا کرنا چاہیے؟

2۔نیز بہت سستی آتی ہے. میں کسی بھی عمل پر استقامت کی دولت سے محروم ہوں, کچھ دن تک پابندی ہوتی ہے, پھر وہ عمل چھوٹ جاتاہے,کیا کوئی علاج ہے؟

3۔میں نے اس ویب سائٹ پر کچھ سوالات بھیجے ہیں مجھے پتہ نہیں ان کے جوابات ابھی تک کیوں میرے جی میل میں شو نہیں کر رہے ہیں برائے مہربانی مطلع فرمائیں۔

جواب

1۔ نماز میں دھیان اور توجہ پیدا ہونے کے لیے مندرجہ ذیل اعمال کا اہتمام کریں، ان شاء اللہ مفید ہوگا۔

۔:اذان کے ساتھ ہی نماز کی تیاری کرنے اور مسجد جانے کا اہتمام کریں۔

۔:استنجا اور وضو کے اَحکام (فرائض، سنن مستحبات) کی رعایت کریں۔

۔:فرض نماز سے اتنا پہلے مسجد پہنچ جائیں کہ سنت یا نفل پڑھ سکیں، اور جب تک نماز کا وقت نہ ہوجائے دل ہی دل میں دعا و استغفار میں مشغول رہیں۔

۔:اس پورے دورانیہ (اذان سے نماز تک) میں اس بات کا دھیان رکھیں کہ میں ایسے دربار میں حاضر ہورہاہوں جو تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور خالقِ کائنات کا دربار ہے، جیسے دنیا کے معمولی حکمران کے سامنے میں غائب دماغ اور پراگندہ فکر نہیں رہ سکتا، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اس دربار کے اَدب کے تقاضے ہیں۔

۔:نماز میں اگر خیالات آئیں تو  ان پر دھیان دینے کے بجائے نماز کے افعال اور جو کچھ نماز میں پڑھیں اس کی طرف توجہ رکھنے کی کوشش کیا کریں، اس کے لیے نماز میں جو کچھ  تسبیحات، دعائیں اور التحیات وغیرہ پڑھی جاتی ہیں، ان کا اور آخری سورتوں کا ترجمہ یاد کرلیں، اور پڑھتے ہوئے معنی کی طرف توجہ رکھیں، اگر ترجمہ یاد نہیں کر سکتے تو الفاظ کی طرف ہی دھیان کریں کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔

۔:اگر کسی طرح بھی توجہ مرکوز نہ ہو تو جس رکن کی ادائیگی میں مشغول ہو اس سے اگلے رکن کو ذہن میں رکھے کہ اب میں نے یہ عمل کرنا ہے، اس کے بعد یہ عمل کرنا ہے، اسی طرح پوری نماز میں دھیان نماز میں ہی رہے گا، یہاں تک کہ سلام پھیر دے گا۔

۔:روزانہ قرآنِ کریم کی تلاوت اور کچھ ذکر کیا کریں، اس سے بھی نماز میں دھیان لگے گا، نیز صلاۃ الحاجہ پڑھ کر اللہ تعالی سے  دل سے دعائیں بھی مانگتے رہیں،۔

امید ہے کہ ان تدبیروں سے دھیان لگنا شروع ہوجائے گا۔ اور جو اس کے بعد بھی بے اختیار دھیان بٹ جائے تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہے، اور نماز میں لذت مطلوب نہیں ہے، اصل بات اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت ہے، خواہ اس میں لذت آئے یا نہیں، شرائط، فرائض اور سنن و مستحبات کے اہتمام کے ساتھ  عبادت انجام دینے کے ہم مکلف ہیں۔

2۔دین و ایمان اور ہر  اعمال پر استقامت کے لیے مندرجہ ذیل دعاؤں کا اہتمام فرمائیں :

"( اللّٰهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِى الأَمْرِ وَأَسْأَلُكَ عَزِيمَةَ الرُّشْدِ وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ وَأَسْأَلُكَ لِسَانًا صَادِقًا وَقَلْبًا سَلِيمًا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ وَأَسْتَغْفِرُكَ مِمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ.)"

"(رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ.)"

" (اللّٰهُمَّ يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ.)"

" (اللّٰهُمَّ أَعِنِّيْ عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ)"

3۔ آپ اپنے سابقہ سوالات کے نمبرات بھیج کر ان سے متعلق معلوم کر سکتے ہیں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"من كان إيمانه مشوبا يقبل الوسوسة ولا يردها وقيل المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان لأن اللص لا يدخل البيت الخالي ولذا روي عن علي رضي الله عنه وكرم الله وجهه إن الصلاة التي لا وسوسة فيها إنما هي صلاة اليهود والنصارى رواه مسلم."

(باب في الوسوسة: ج:1، ص: 320، ط: المشکاة الإسلامیة)

وفیه أیضاً:

"أللهم إني أسألك الثبات في الأمر أي في جميع الأمور المتعلقة بأمر الدين والعزيمة على الرشد، وهي كالعزم عقد القلب على إمضاء الأمر، وقدم الثبات على العزيمة وإن كان فعل القلب مقدما على الفعل والثبات عليه، اشارة إلى أنه المقصود بالذات؛ لأن الغايات مقدمة في الرتبة وإن كانت مؤخرة في الوجود؛ لقوله تعالى: الرحمن علم القرآن، خلق الإنسان، وكذا حققه الطيبي، وفي الصحاح: عزمت على الأمر عزما وعزيمة إذا أردت فعله وقطعت عليه اھ والرشد: بضم الراء وسكون المعجمة ويروى بفتحهما بمعنى الهداية، والمراد لزومها ودوامها."

(باب الدعاء في التشهد: ج:4، ص: 38، ط: المشکاة الإسلامیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں