بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نامحرم مرد و عورت کا ایک دوسرے کو سلام کرنے اور سلام کا جواب دینے کا حکم


سوال

کیا مرد نامحرم عورت کو سلام کرسکتا ہے؟ اور اسی طرح کیا عورت نامحرم مرد کو سلام کرسکتی ہے؟

جواب

1- مرد کے لیے نامحرم عورت کو سلام کرنے کا حکم

مرد کے لیے نامحرم عورت کو سلام کرنا پسندیدہ نہیں ہے، خاص کر اگر دونوں یا کوئی ایک جوان ہو، اور اگر نامحرم جوان عورت خود سلام کی ابتدا کرلے تو مرد دل ہی  دل میں اس طرح سلام کا جواب دے دے کہ عورت کو اس کی آواز سنائی نہ دے، زبان سے بلند آواز سےجواب نہ دیا جائے، ہاں اگر سلام کرنے والی نامحرم عورت بوڑھی ہو تو زبان سے بلند آواز کے ساتھ بھی سلام کا جواب دیا جاسکتا ہے۔

بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ خواتین کے مجمع کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے سلام کیا اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ سلام کیا اور ہاتھ سے اشارہ کیا، اس کی شرح میں محدثینِ کرام فرماتے ہیں کہ یا تو یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت تھی کہ آپ ﷺ امت کے لیے بمنزلۂ والد تھے، یا پھر یہ محمول ہوگا اس صورت کا جواز بتانے کے لیے جہاں کسی عورت سے انفرادی طور پر سلام نہ ہو اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو، بلکہ عمومی مجمع ہو اور پردے کا اہتمام ہو تو بوقتِ ضرورت عمومی سلام کیا جاسکتاہے۔ 

2- عورت کے لیے نامحرم مرد کو سلام کرنے کا حکم

عورت کے لیے بھی نامحرم مرد کو سلام کرنا پسندیدہ نہیں ہے، خاص کر جب کہ دونوں یا کوئی ایک جوان ہو، اگر کوئی نامحرم مرد خود سے عورت کو سلام کرلے تو اگر سلام کرنے والا نامحرم مرد جوان ہو تو عورت کو چاہیے کہ بلند آواز سے جواب دینے کے بجائے دل ہی دل میں سلام کا جواب دے دے، البتہ اگر سلام کرنے والا نامحرم مرد بوڑھا ہے اور فتنے میں ابتلا کا خوف نہیں ہے تو پھر بلند آواز سے بھی جواب دینے کی گنجائش ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 369):

"وفي الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: ولايكلّم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلّمت فيشمّتها و يردّ السلام عليها، وإلا لا انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن عجوزًا بل شابَّةً لايشمّتها، ولايرد السلام بلسانه، قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه، وكذا الرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اهـ. وفي الذخيرة: وإذا عطس فشمتته المرأة فإن عجوزا رد عليها وإلا رد في نفسه اهـ وكذا لو عطست هي كما في الخلاصة۔

"عن یحی بن أبي کثیر قال: بلغني أنه یکره أن یسلم الرجل علی النساء، والنساء علی الرجل".

(شعب الإیمان، فصل في السلام علی النساء، دار الکتب العلمیة بیروت ۶/۴۶۰، رقم: ۸۸۹۶)

"قال: و أخبرنا معمر، قال: کان قتادة یقول: أما امرأة من القواعد فلا بأس أن یسلم علیها، وأما الثانیة فلا".(شعب الإیمان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں