بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نمازِ عشاء سے پہلے تراویح ادا کرنا درست نہیں ہے۔


سوال

اگر کسی شخص نے پہلے تراویح اور وتر پڑھ لیے، پھر بعد میں عشاء کی فرض اور سنتیں ادا کیں، تو اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟

جواب

تراویح کا وقت عشاء کی فرض نماز کے بعد سے لے کر فجر کا وقت داخل ہونے تک ہے، عشاء کی نماز سے پہلے تراویح پڑھنا درست نہیں، اور اگر کسی نے پڑھ لی تو وہ نفل شمار ہوگی، البتہ عشاء کی نماز کے بعد، وقت باقی ہو تو تراویح دوبارہ پڑھ لے، جب کہ وقت گزر جانے کے بعد اس کی قضا نہیں، اسی طرح    وتر کی نماز قصداً عشاء سے  پہلے  ادا کرنے سے  ادا ہی نہیں  ہوتی، لہذا  اگر کسی نے قصداً وتر کو عشاء کے فرض پر مقدم کیا تو ایسی صورت میں عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد  دوبارہ وتر ادا کرنا ضروری ہوگا، خواہ عشاء کی نماز کا وقت باقی ہو یا گزر گیا ہو۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والصحيح أن وقتها ما بعد العشاء إلى طلوع الفجر قبل الوتر وبعده حتى لو تبين أن العشاء صلاها بلا طهارة دون التراويح والوتر أعاد التراويح مع العشاء دون الوتر؛ لأنها تبع للعشاء هذا عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى- فإن الوتر غير تابع للعشاء في الوقت عنده، والتقديم إنما وجب لأجل الترتيب وذلك يسقط بعذر النسيان فيصح إذا أدى قبل العشاء بالنسيان بخلاف التراويح فإن وقتها بعد أداء العشاء فلا يعتد بما أدي قبل العشاء وعندهما الوتر سنة العشاء كالتراويح فابتداء وقته بعد أداء العشاء فتجب الإعادة إذا أدي قبل العشاء وإن كان بالنسيان عندهما كالتراويح وبالجملة إعادة الوتر مختلف فيها، وأما إعادة التراويح وسائر سنن العشاء فمتفق عليها إذا كان الوقت باقيا هكذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراويح، ج:1، ص:110، ط:دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144609101717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں