بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نماز جنازہ میں تکرار


سوال

کیا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر ستر مرتبہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے؟ اگر ہے تو اس کی تاویل کیا ہے جب کہ احناف کے نزدیک تکرار نماز جنازہ مشروع نہیں ہے؟

جواب

 مذکورہ  واقعہ  کے  ثبوت کے  بارے  میں علامہ  ابن ہمام رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کی اگرچہ سب روایات میں سنداً ضعف ہو،  مگر پھر بھی سب مل کر درجہ حسن تک  پہنچ  جاتی ہیں۔

باقی رہا یہ اشکال کہ  احناف کے نزدیک نمازِ  جنازہ  کا  تکرار ممنوع ہے، جب کہ   مذکورہ  واقعہ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  کی نمازِ  جنازہ ستر مرتبہ تک پڑھی گئی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ  رسول اللہ ﷺ کے سامنے درحقیقت   ایک ایک کر کے  جنازے لائے جا رہے تھے، اور آپﷺ ان پر نماز جنازہ  پڑھتے جاتے تھے اس حال میں کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ آپ ﷺ کے سامنے ہی رکھا تھا تو اس سے راوی یہ سمجھے کہ نبیﷺ  ہر مرتبہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر بھی جنازہ پڑھ رہے ہیں؛ لہٰذا انہوں نے یہ روایت فرمائی کہ آپ ﷺ  نے ان پر ستر  مرتبہ نماز جنازہ  پڑھی۔  یا پھر یہ بھی احتمال ہوسکتا ہے کہ واقعی نبی کریمﷺ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ  پر ستر مرتبہ نمازِ  جنازہ پڑھی اور یہ ان ہی کی خصوصیت تھی، ان کے اعزاز و شرف و اکرام کے طور پر۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1 / 325):

" رُوِيَ «أَنَّهُ صَلَّى عَلَى حَمْزَةَ سَبْعِينَ صَلَاةً» وَبَعْضُهُمْ أَوَّلُوا ذَلِكَ بِأَنَّهُ كَانَ يُؤْتَى بِوَاحِدٍ، وَاحِدٍ فَيُصَلِّي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَمْزَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بَيْنَ يَدَيْهِ فَظَنَّ الرَّاوِي أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي عَلَى حَمْزَةَ فِي كُلِّ مَرَّةٍ فَرَوَى أَنَّهُ صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعِينَ صَلَاةً، وَيُحْتَمَلُ أَنَّهُ كَانَ ذَلِكَ عَلَى حَسَبِ الرِّوَايَةِ، وَكَانَ مَخْصُوصًا بِتِلْكَ الْكَرَامَةِ."

كذا في المبسوط للسرخسي (2 / 50)، وكذا في المحيط البرهاني في الفقه النعماني (2 / 162)

وفي فتح القدير للكمال ابن الهمام (2 / 144):

"وقد روى الحاكم عن جابر قال: «فقد رسول الله صلى الله عليه وسلم حمزة حين فاء الناس من القتال، فقال رجل: رأيته عند تلك الشجرة، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم نحوه، فلما رآه ورأى ما مثل به شهق وبكى، فقام رجل من الأنصار فرمى عليه بثوب، ثم جيء بحمزة فصلى عليه، ثم بالشهداء فيوضعون إلى جانب حمزة فيصلي عليهم، ثم يرفعون ويترك حمزة حتى صلى على الشهداء كلهم» وقال صلى الله عليه وسلم: «حمزة سيد الشهداء عند الله يوم القيامة» مختصر، وقال صحيح الإسناد ولم يخرجاه إلا أن في سنده مفضل بن صدقة أبا حماد الحنفي، وهو وإن ضعفه يحيى والنسائي فقد قال الأهوازي: كان عطاء بن مسلم يوثقه، وكان أحمد بن محمد بن شعيب يثني عليه ثناءً تامًّا.

وقال ابن عدي: ما أرى به بأسًا، فلايقصر الحديث عند درجة الحسن، وهو حجة استقلالا فلا أقل من صلاحيته عاضدا لغيره. وأسند أحمد، حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا حماد بن سلمة، حدثنا عطاء بن السائب عن الشعبي عن ابن مسعود قال «كان النساء يوم أحد خلف المسلمين يجهزن على جرحى المشركين، إلى أن قال: فوضع النبي - صلى الله عليه وسلم - حمزة وجيء برجل من الأنصار فوضع إلى جنبه، فصلى عليه فرفع الأنصاري وترك حمزة، ثم جيء بآخر فوضع إلى جنب حمزة فصلى عليه ثم رفع وترك حمزة صلى يومئذ عليه سبعين صلاة» وهذا أيضا لا ينزل عن درجة الحسن، وعطاء بن السائب فيه ما تقدم في باب صلاة الكسوف، وأرجو أن حماد بن سلمة ممن أخذ عنه قبل التغير، فإن حماد بن زيد ممن ذكر أنه أخذ عنه قبل ذلك، ووفاته تأخرت عن وفاة عطاء بنحو خمسين سنة، وتوفي حماد بن سلمة قبل ابن زيد بنحو اثنتي عشرة سنةً فيكون صحيحًا، وعلى الإبهام لاينزل عن الحسن.

وأخرج الدارقطني عن ابن عباس قال «لما انصرف المشركون عن قتلى أحد، إلى أن قال: ثم قدم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حمزة فكبر عليه عشرا، ثم جعل يجاء بالرجل فيوضع وحمزة مكانه حتى صلى عليه سبعين صلاة، وكانت القتلى يومئذ سبعين» وهذا أيضا لا ينزل عن الحسن، ثم لو كان الكل ضعيفا ارتقى الحاصل إلى درجة الحسن، ثم كان عاضد المراسيل سيد التابعين عطاء بن أبي رباح، على أن الواقدي في المغازي قال: حدثني عبد ربه بن عبد الله عن عطاء عن ابن عباس فذكره.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں