نماز کے بعد سجدے میں دعا کا طریقہ کیا ہے ؟ ہاتھوں کو کس طرح رکھا جائے گا ؟
بلاشبہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس حالت میں دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہے، اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عن أبي هریرة رضي الله عنه أن رسول الله صلی الله علیه و سلم قال:" أقرب ما یکون العبد من ربه و هو ساجد؛ فأکثروا الدعاء".
(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب ما یقال في الرکوع و السجود، ج: 2، ص: 49، ط: دارالطباعة العامرة)
ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "بندہ اپنے رب کے قریب ترین اس وقت ہوتا ہے جس وقت وہ سجدے کی حالت میں ہو؛ لہذا سجدے کی حالت میں زیادہ سے زیادہ دعا کرو"۔
ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی وارد ہے:
"و أما السجود فاجتهدوا في الدعاء، فقمن أن یستجاب لکم".
(صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب النهي عن قراءة القرآن في الرکوع و السجود، ج: 1 ص: 350، ط: دارإحياء التراث العربي)
ترجمہ: "سجدے میں زیادہ سے زیادہ دعا کی کوشش کرو، عین ممکن ہے کہ تمہاری دعا قبول ہو جائے".
البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایات سجدہ میں دعا کرنے سے متعلق ملتی ہیں وہ نفلی نمازوں کے سجدوں میں دعا مانگنے سے متعلق ہیں، الگ سے سجدہ کرکے دعا مانگنے کا کسی حدیث سے صراحتاً ثبوت نہیں ملتا،لہٰذا نماز کے باہر الگ سےسجدہ کرکے اس میں دعا مانگنے کی عادت نہیں بنانی چاہیے، سجدے میں دعا کرنی ہو تو نفلی نمازوں (جیسےصلوٰۃ الحاجۃ وغیرہ)کے سجدوں میں عربی زبان میں دعائیں مانگنی چاہییں، اور ہاتھوں کو سجدہ کی حالت میں جس طرح رکھتے ہیں ( یعنی سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان اس طرح رکھے کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر آجائیں ، اور ہاتھوں کی انگلیاں ملاکر قبلہ رخ ہوں ) اسی طرح رکھیں گے ۔
فرض نماز کے بعد سجدہ کرکے اس میں دعا مانگنادرست نہیں ہے ،چنانچہ فرض نماز کےبعدسجدہ کرکےاس میں دعامانگناسےاحتراز کرناچاہیے۔
اس حوالے سے فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
"اس طرح کا سجدہ سجدہ مناجات کہلاتا ہے اس کی بارے میں بعض علماءِ دین کا قول ہے کہ مکروہ ہے ۔
مشکاۃ شریف کی شرح اشعۃ اللمعات میں ہے ۔ سوم سجدہ مناجات بعد از نماز وظاہرکلام اکثر علماء آنست کہ مکروہ است (اشعۃ للمعات ج ۱ص ۶۲۰) (شرح سفر السعادۃ۔ ص ۱۵۹)
لہذا اس کی عادت بنا لینا غلط ہے ، دعا اورمناجات کا مسنون طریقہ جس کی مسنونیت میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے اس کو ترک کر کے اختلافی طریقہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے ۔ سجدہ میں دعا کرنے کی جو روایت ہے ،اس کے متعلق شرح سفر السعادۃ میں ہے :
"وآنکہ در احادیث آمدہ است کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در سجدہ اطالت میفر مودود عابسیار میکرد مراد بدں سجدہ‘ صلاتیہ است"۔ (ص ۱۵۹)
یعنی حدیثوں میں جو وارد ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ طویل فرماتے اور بہت دعا کیا کرتے تھے۔ اس سے مراد وہی سجدہ ہے جو نفل نماز میں کیا کرتے تھے ۔ پس تہجد کے سجدہ میں وہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں جو احادیث میں وار د ہوئی ہیں. فقط واللہ اعلم"۔
(فتاوی رحیمیہ، کتاب السنۃ والبدعۃ، جلد: 2، صفحہ : 234 ، طبع: دارالاشاعت)
بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:
"ومنها أن يضع يديه في السجود حذاء أذنيه لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «كان إذا سجد وضع يديه حذاء أذنيه» ، ومنها أن يوجه أصابعه نحو القبلة لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إذا سجد العبد سجد كل عضو منه فليوجه من أعضائه إلى القبلة ما استطاع»".
(کتاب الصلوۃ، فصل في سنن حكم التكبير أيام التشريق، ج:1، ص:210، ط:دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102762
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن