فجر کی نماز کے اوقات میں رمضان اور دیگر دنوں میں فرق کی کیا وجہ ہے؟
فجر کی نماز کا وقت صبح صادق طلوع ہونے سے شروع ہو کر سورج طلوع ہونے سے کچھ دیر پہلے تک رہتا ہے۔ عام دنوں میں فقہ حنفی کے مطابق فجر کی نماز کو روشنی پھیلنے کے وقت ادا کرنا بہتر ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جماعت میں شریک ہوسکیں اور نماز کامل یکسوئی کے ساتھ ادا کی جا سکے۔
رمضان المبارک میں اس کے برعکس فجر کی اذان صبح صادق کے فوراً بعد دی جاتی ہے، کیونکہ اگر نماز کو تاخیر سے پڑھا جائے تو بہت سے لوگ سحری کے بعد آرام کرنے کی وجہ سے جماعت میں شریک نہیں ہوپاتے۔ اس لیے رمضان میں فجر کی نماز اذان کے کچھ وقفے کے بعد پڑھنا زیادہ مناسب ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جماعت میں شامل ہوسکیں ۔
فیض الباری میں ہے:
"حدثنا مسلم بن إبراهيم حدثنا هشام حدثنا قتادة عن أنس عن زيد بن ثابت - رضى الله عنه - قال تسحرنا مع النبى - صلى الله عليه وسلم - ثم قام إلى الصلاة. قلت كم كان بين الأذان والسحور قال قدر خمسين آية."
(كتاب الصوم، باب قدر كم بين السحور وصلاة الفجر، ج:3، ص:336، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
ترجمہ: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔" میں نے پوچھا: اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ انہوں نے کہا: "تقریباً پچاس آیتوں کے برابر۔"
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"يستحب تأخير الفجر ولا يؤخرها بحيث يقع الشك في طلوع الشمس بل يسفر بها بحيث لو ظهر فساد صلاته يمكنه أن يعيدها في الوقت بقراءة مستحبة. كذا في التبيين."
(کتاب الصلاۃ،الفصل الثاني في بيان فضيلة الأوقات،ج1،ص52،ط؛دار الفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609101790
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن