مجھے شادی کیے ہوئے 12 سال ہو چکے ہیں،شوہر سے میرے تین بچے ہیں، وہ اُس وقت بے روزگار تھے اور شاذ و نادر ہی مجھے اور میرے بچوں کے لیے خرچہ دیتے تھے، گھر میرے سسر چلاتے تھے،میں پردہ کر کے نوکری پر جاتی ہوں، ان کے نفسیاتی رویے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور ہو گئے اور میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگی، انہوں نے کبھی مجھے واپس گھر لانے یا طلاق دینے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، اس دوران چھ سال اور آٹھ ماہ گزر گئے، وہ چاہتے تھے کہ مجھے اپنی نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھنا چاہیے، اس لیے میں نے پندرہ ماہ کے لیے ایسا کیا، انہوں نے کبھی مجھے تسلیم نہیں کیا،نہ میرا ساتھ دیا، نہ ہی مجھے خرچہ دیا اور نہ ہی امن و سکون کے لیے الگ گھر فراہم کیا، بزرگوں کی مصالحتی کوششوں سے ہم دو سال پہلے دوبارہ ساتھ رہنے لگے، لیکن بارہ سال کے اس پورے عرصے میں انہوں نے صرف بچوں کی سکول کی فیس اور چند دیگر چیزوں کے اخراجات کبھی کبھار ادا کیے، وہ ہمیشہ میرے ساتھ لڑتے رہتے ہیں، مجھے بے عزت کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ میں ان کی آمدنی کی حق دار نہیں ہوں؛کیوں کہ میں اس کے ساتھ اس کے والدین کے گھر نہیں رہتی، اب وہ اچھی تنخواہ کما رہےہیں، میں ان کے رویے سے تنگ آ چکی ہوں، وہ کبھی بھی میرے ساتھ اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتے اور ہمیشہ مجھے ہماری ازدواجی زندگی کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں،اب وہ چاہتے ہیں کہ میں نوکری چھوڑ کر ان کے والدین کے ساتھ لاہور میں رہوں، جب کہ میں دوبارہ اس مشترکہ خاندانی نظام میں واپس نہیں جانا چاہتی ؛کیوں کہ وہی پرانے مسائل دوبارہ پیدا ہو جائیں گے، ہر کوئی مجھے سمجھوتہ کرنے کا مشورہ دے رہا ہے،براہِ کرم مجھےاسلامی تعلیمات کی روشنی میں بتائیں کہ اس صورتِ حال میں کون سا راستہ بہتر ہے؟ صبر کر کے سوچنا کہ وہ آنے والے سالوں میں بدل جائیں گے یا خلع لے کر اپنی زندگی کو پر سکون بنانا؟ ان حقائق کی روشنی میں، اگر میں ان سے خلع لے لوں، تو کیا مجھے روزِ قیامت سزا ملے گی؟
واضح رہے کہ عورت کاشدید مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت بغیر کسی مجبوری کے اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرےاس پر جنت کی خوشبو حرام ہے،اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے، بلاوجہ شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ نہ کرے، اگر کبھی کوئی ناخوش گوار بات پیش آجائے تو اس پر صبر کرے ، شوہر کے حقوق کی رعایت کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کو نان نفقہ دے ،بیوی کے حقوق کی رعایت کرےاور اس کو الگ گھر یا کمرہ وغیرہ دے، جس میں شوہر کے رشتہ داروں کا آنا جانا نہ ہو،اور اگر کبھی ایسا مسئلہ پیش آجائے جو باہم حل نہ ہورہا ہوتو خاندان کے بڑے اور معزز لوگوں سے بات چیت کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائے، یعنی جس قدر ہوسکے رشتہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگرنباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور دونوں میاں بیوی کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر ایسی صورت میں عورت خلع لے سکتی ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرآپ کو اپنے شوہر کے رویہ میں نرمی کی امید ہو یا خاندان کے بڑوں کے ذریعے صلح کی امید ہو تو حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرکے سمجھوتہ کرنا چاہیے، تاکہ بچوں کی اچھی پرورش ہو سکے، لیکن اگرتمام کوششوں کے باوجود شوہر نان نفقہ یا الگ سکنی (جس میں شوہر کے بہن بھائی اور والدین کا آنا جانا نہ ہو) دینے کو راضی نہ ہو ، بلکہ بیوی کو مشترکہ خاندانی نظام ميں رہائش پر مجبور كر رہا ہو، بیوی مشترکہ نظام میں رہنے پر رضامند نہ ہواور باہمی مصالحت کی کوئی صورت نہ بن رہی ہو تو آپ کے لیے طلاق یا خلع لینا شرعاً جائز ہے، اس پرگناہ نہیں ہوگا۔
اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگرآپ شوہرکے ساتھ رہنے پرراضی نہیں ہیں اور دونوں کے مابین نباہ کی کوئی صورت نہیں بن رہی، اور شوہربلا عوض طلاق بھی نہیں دیتاتو اپناپوراحق مہر واپس کرکے (اگر وصول کرلیا ہے اور اگر وصول نہیں کیا تو معاف کرکے) یا کچھ مال بطورِ فدیہ دے کر شوہرکوخلع دینے پر راضی کریں؛ اس لیے کہ خلع کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، اگر شوہر خلع دینے پر رضامند نہ ہو توپھرخلع واقع نہیں ہوگی (اگرچہ عدالت سے خلع لی ہو)، خلع کے بعد پوری عدت(تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہوتو بچے کی پیدائش تک) گزارنا لازم ہوگی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229]
ترجمہ: ’’سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قا ئم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا، اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے۔‘‘
(از بیان القرآن)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."
(باب الخلع، ج: 6، ص: 173، ط: دارالمعرفہ بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول."
(فصل في حکم الخلع، ج: 3، ص: 145، ط ؛سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601102221
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن