میرے نانا نے مجھے لے پالک بیٹا بنایاہوا تھا کیونکہ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا ، نانا نے مجھے اپنی حیات میں کہا تھا کہ میری جتنی ملکیت ہے وہ سب تمہاری ہے ، نانا نے اپنا کاروبار مجھے اس طرح دیا تھا کہ انہوں نے کہا کہ یہ کاروبار تمہارا ہے اور دوکانیں بھی تمہاری ہیں اور قبضہ بھی انہوں نے مجھے دے دیاتھا کہ چابیاں اور کاغذات سب کچھ میرے حوالے کردیا اور مجھے دکانوں پر بیٹھا دیا، اس کے بعد نانا کاروبار کے لیے نہیں آتے تھے، کیونکہ انہوں نے مجھے سب کچھ دے دیا تھا کہ یہ تمہارا ہے، میرا اس میں کوئی کام نہیں ہے۔
(1)کیا یہ سب دوکانیں اور کاروبارمیرا شمار ہوگا یا میراث میں تقسیم ہوگا؟
(2) نانا جس گھر میں رہتے تھے ، اس کے بارے میں مجھے کہا تھا کہ یہ بھی تمہارا ہی ہے، وہ گھر نانا نے پگڑی پر لیاتھا، اس گھر کا کرایہ میں ادا کرتا رہاہوں ، نانا وفات تک اس گھر میں رہے ہیں ، اس گھر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
نوٹ:دوکانیں نانا کی ذاتی ملکیت تھیں، اور دوکانوں اور کاروبار کا قبضہ انتقال سے تقریباًپانچ، چھ سال پہلے مجھے دے دیا تھا، اور کاروبار بستروں کا تھا ، ایک دوکان میں تیار بستر موجود ہوتا تھا اور باقی دوکانوں میں اس کاروبار سے متعلقہ سامان ہوتا تھا، اور میرے نانا کے انتقال کے وقت اس کی بیوہ(میری نانی) دو بیٹیاں یعنی میری والدہ اور ایک میری خالہ تھی، اور دو بھائی اور تین بہنیں موجود تھیں۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنی مملوکہ کوئی چیز ہبہ(گفٹ) کرلے اور موہوب لہ (جس کو گفٹ کیا جارہا ہو)اس چیز پر قبضہ کرلے تو وہ چیز اس کی ملکیت ہوجاتی ہے۔
(1)لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا سوال نامہ اگر حقائق پر مبنی ہے کہ سائل کے نانا نے اپنی حیات ہی میں اپنا کاروبا اور دوکانیں سائل کو بطور ملکیت دی اور سائل کو اس پر قبضہ و تصرف بھی دیدیا اور اس پر معتبر گواہان یا ثبوت موجود ہیں یا ثبوت تو نہیں البتہ تمام ورثاء اس دعوی کو تسلیم کریں، تو اس صورت میں سائل ان دوکانوں اور کاروبار کا مالک بن چکا ہے ، اب نانا کے انتقال کے بعد مذکورہ دوکانیں اور کاروبار نانا کے ترکہ میں شمار نہیں ہوں گے، البتہ زیرنظر مسئلہ میں نانا کا اپنے شرعی ورثاء کومحروم کرکے ساری جائیداد صرف سائل کو دے دینا شرعاً جائز نہیں تھا، نانا اپنے شرعی ورثاء کو محروم کرکے گناہ گار ہوئے، سائل کے نانا کا سائل کو ایک تہائی کے بقدر دینا جائز تھا، اب اس کے ازالہ کی صورت یہ ہے کہ یا تو مرحوم نانا کے شرعی ورثاء نانا کے اس فعل پر راضی ہوجائیں ، اگر وہ راضی نہ ہو ں ، تو سائل ایک تہائی حصہ کے بقدر مال رکھ کر باقی مال مرحوم نانا کے شرعی ورثاء کے حوالہ کردے تاکہ وہ شرعی میراث کے قانون کے اعتبار سے اس کو تقسیم کرلیں، اور سائل کے نانا آخرت کی پکڑ سے بچ جائیں۔
(2)واضح رہے کہ پگڑی پر لیے ہوئے مکان کا مالک پگڑی پر مکان لینے والا نہیں ہوتا بلکہ وہ مکان پگڑی پر مکان دینے والے کی ہی ملکیت ہوتا ہے، البتہ پگڑی پر مکان لینے والے شخص پگڑی پر دی ہوئی اپنی رقم کا مالک ہوتا ہے ، لہذا مذکورہ مکان نانا کے ترکہ میں شمار نہیں ہوگا، بلکہ نانا کرایہ دار تھے اور نانا کے بعد ان کے ورثاء کرایہ دار ہیں، اس گھر میں رہائش کا حق سائل کے نانا کے شرعی ورثاء کا ہوگا، البتہ سائل کے نانا نے اپنی ذاتی رقم سے پگڑی کے مکان میں کوئی زائد کام کروایا تھا مثلاً لکڑی کا کام ، رنگ و روغن اور بجلی وغیرہ کا کام تو ایسی صورت میں نانا کے شرعی ورثاء اگر یہ مکان کسی دوسرے شخص کو زائد رقم کے عوض حوالہ کریں تو یہ کل رقم نانا کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن سعد بن أبي وقاص قال: عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا مريض فقال: "أوصيت؟" قلت: نعم قال: «بكم؟» قلت: بمالي كله في سبيل الله. قال: "فما تركت لولدك؟" قلت: هم أغنياء بخير. فقال: "أوص بالعشر" فما زالت أناقصه حتى قال: "أوص بالثلث والثلث كثير."
(كتاب الفرائض والوصايا، باب الوصايا، الفصل الثاني، ج:2، ص:925، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز.وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له حتى لو حلف أن لا يهب فوهب ولم يقبل الآخر حنث، كذا في محيط السرخسي.وأما شرائطها فأنواع يرجع بعضها إلى نفس الركن وبعضها يرجع إلى الواهب وبعضها يرجع إلى الموهوب، أما ما يرجع إلى نفس الركن فهو أن لا يكون معلقا بما له خطر الوجود والعدم من دخول زيد وقدوم خالد ونحو ذلك، ولا مضافا إلى وقت بأن يقول: وهبت هذا الشيء منك غدا أو رأس شهر كذا في البدائع.والرقبى باطلة وهي أن يقول: داري لك رقبى، ومعناه: إن مت فهي لي، وإن مت فهي لك، كأن كل واحد منهما يراقب موت الآخر، كذا في الاختيار. وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد بأن وهب ما تثمر نخيله العام وما تلد أغنامه السنة ونحو ذلك، وكذلك لو وهب ما في بطن هذه الجارية أو ما في بطن هذه الشاة أو ما في ضرعها، وإن سلطه على القبض عند الولادة والحلب، وكذلك لو وهب زبدا في لبن أو دهنا في سمسم أو دقيقا في حنطة لا يجوز، وإن سلطه على قبضه عند حدوثه؛ لأنه معدوم للحال فلم يوجد محل حكم العقد، وهو الأصح، هكذا في جواهر الأخلاطي.إذا وهب صوفا على ظهر غنم وجزه وسلمه فإنه يجوز. ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا كالحر والميتة والدم وصيد الحرم والخنزير وغير ذلك ولا هبة ما ليس بمال مطلق كأم الولد والمدبر المطلق والمكاتب ولا هبة ما ليس بمال متقوم كالخمر، كذا في البدائع. ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب حتى لو وهب أرضا فيها زرع للواهب دون الزرع، أو عكسه أو نخلا فيها ثمرة للواهب معلقة به دون الثمرة، أو عكسه لا تجوز، وكذا لو وهب دارا أو ظرفا فيها متاع للواهب، كذا في النهاية. ومنها أن يكون مملوكا فلا تجوز هبة المباحات؛ لأن تمليك ما ليس بمملوك محال. ومنها أن يكون مملوكا للواهب فلا تجوز هبة مال الغير بغير إذنه لاستحالة تمليك ما ليس بمملوك للواهب."
(كتاب الهبة ، الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، ج:4، ص:374، ط:دارالفکر بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"قلت: ورأيت في فتاوى الكازروني عن العلامة اللقاني أنه لو مات صاحب الخلو يوفى منه ديونه ويورث عنه وينتقل لبيت المال عند فقد الوارث.هذا، وقد استدل بعضهم على لزومه وصحة بيعه عندنا بما في الخانية: رجل باع سكنى له في حانوت لغيره فأخبر المشتري أن أجرة الحانوت كذا فظهر أنها أكثر من ذلك قالوا: ليس له أن يرد السكنى بهذا العيب اهـ. وللعلامة الشرنبلالي رسالة رد فيها على هذا المستدل بأنه لم يفهم معنى السكنى؛ لأن المراد بها عين مركبة في الحانوت، وهي غير الخلو. ففي الخلاصة اشترى سكنى حانوت في حانوت رجل مركبا وأخبره البائع أن أجرة الحانوت كذا فإذا هي أكثر ليس له أن يرد."
(کتاب البیوع، مطلب في خلو الحوانيت، ج:4، ص:521، ط:ایچ ایم سعید کمپنی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100512
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن