بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نقلی پلکیں اورناخن اورسرپر بالوں کا جوڑا باندھنےکا حکم


سوال

1۔نقلی پلکیں لگا نا جا ئز ہے یا نہیں  ؟اورنقلی ناخن جو آج کل لڑکیاں لگاتی ہیں ،ان کا لگانا جائز ہے یا نہیں ؟

2۔عورتوں کو کتنا اونچا بالوں کا جوڑا بنانا جائز ہے ؟جیسے کام کرتے ہوئے عورتیں سرپر جوڑا بنالیتی ہیں تو اس سےگناہ تو نہیں ہوگا اورکسی عورت کی گردن پر پسینہ بہت آتا ہے اوروہ جوڑا باندھے تویہ جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ خواتین کے لیے جائز حدود میں رہ کر شوہر کی خاطر زینت اختیا کرنا پسندیدہ ہے، اور غیر محرموں کو دکھانے  یا دیگر خواتین کے سامنے فخر و مباہات کی غرض سے زینت اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے دیگر ضرورت اور خوشی کے موقعوں پر زیب وزینت کرنا منع نہیں ہے،لہذا   عورتوں کے لیے  زینت کی خاطر (انسان اور خنزیر کے بالوں کے علاوہ کی ) مصنوعی پلکیں لگانا جائز ہے ، بشرط یہ کہ ان مصنوعی پلکوں سے کسی محض دکھلاوا، یا  دھوکا دینا یا خلافِ حقیقت صورت کا اظہار مقصود نہ ہو،  البتہ وضو کے لیے پلکیں  نکال کر وضو کرنا ضروری ہوگا،نیز مصنوعی ناخن لگانا شریعت کےمقاصد کے خلاف ہے؛ کیوں کہ شریعت میں اصلی ناخن کوکاٹنے کا حکم ہے ،  پھر مصنوعی ناخن کے لمبا دکھانے کی اجازت کیسے ہوگی، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔

2۔عورت کے لیے بالوں کو جمع کرکے سر کے اوپر  جوڑا باندھنا جائز نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں اس پر وعید وارد ہوئی ہے کہ ایسی عورت کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہیں ہوگی۔  البتہ  عورت  کے لیے گدی پر  بالوں کا جوڑا باندھنا جائز ہے۔

صحیح بخاری میں  ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: الفطرة ‌خمس: الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الآباط."

(كتاب اللباس، باب تقليم الاظفار، ج:7، ص:160، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا۔"

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صنفان من أهل النار لم أرهما، قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لايدخلن الجنة، ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا."

(كتاب اللباس والزينة،باب: النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات، 3/ 1680، برقم 2128، ط. دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ووصل الشعر بشعر الآدمي  حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة: التي تنتف الشعر من الوجه. والمتنمصة: التي يفعل بها ذلك.(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر (قوله: «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً ".

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج 6، صفحہ: 372، ط: ایچ، ایم، سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

" (و للحرة) و لو خنثى (جميع بدنها) حتى شعرها النازل في الأصح. 

(قوله: النازل) أي عن الرأس، بأن جاوز الأذن، وقيد به إذا لا خلاف فيما على الرأس."

(کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاة،مطلب في ستر العورة،ج:1،ص:405،ط:سعید)

احكام تجميل النساءميں هے :

 المسألة الثانية:  الأظافرالصناعية:

"وظاهرة ارتداء الأظافر الصناعية من الظواهر التي شاعت وانتشرت بين النساء، وهذا الأمر قد يتحقق فيه الشبه المحرّم بالكافرات أو الفاسقات، لأن الأصل في ظاهر المسلمة أن يكون ظفرها مقلماً قصيراً لا معفى طويلاً، بل إن هناك من العلماء من يرى أن في إطالة الظفر - الطبيعي - تشبها ببعض الكفرة وتشبه بالبهائم كالقطط والسباع ونحوها .ثم إن الواجب في المسلمة أن تحرص على أن تظهر بالمظهر الذي يحقق لها الالتزام بدينها وتمسكها به ، وقد وقت الرسول ﷺ المدة المتاحة في ترك الأظافر دون تقليم بأربعين يوما ، أما من ارتدت الأظافر الصناعية فإنها تبدو في حاجة لتقليم عاجل، لذا فإن الظفر الاصطناعي الطويل المستعار لا يمكن أن يكون في يوم من الأيام من زينة المسلمة، إذ أن زينتها الحقيقية في تقصيره وإظهاره بالمظهر القصير لا في إطالته أو إظهاره بمظهر الطويل .لذا فإني أرى أن هذه الأظافر شر وخبث، إذ أن الأظافرالطبيعية مطلوب إزالتها إنطالت، والظاهر أنها للمنع والتحريم أقرب، والله تعالى أعلم"

( المطلب الثالث في الزينة  الصناعية،ص:222،ط:دارالفضيلة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603103222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں