(1)ہماری ایک فیڈ فیکٹری ہے ، ہم پر کوئی بینک وغیرہ کا قرض نہیں، مگر جولائی میں ہمارے پاس تمام رقم ختم ہو جاتی ہےتو مٹیریل جس سے خوراک تیار ہوتی ہے ادھار پر لینا پڑتا ہے،4/5 ماہ کے لیے ادھارمٹیریل کا ریٹ نقد سے زیادہ ہوتا ہے،جو ہمیں قابل قبول ہوتا ہے،مکئی کا نقد ریٹ 2500 روپے من ہوتا ہے،مگر جب 4/5ماہ کے ادھار کی بات کرتے ہیں تو اس کی رقم 3000 روپےمن ہوتی ہے،جسے ہم قبول کرتے ہیں،کیا یہ درست ہے؟
(2)اگر کوئی انویسٹر (جو کہ ہمارے کام میں پارٹنر نہیں ہوتا ہے، بلکہ تیسرا آدمی ہوتا ہے)وہ نقد رقم ادا کر دے اور ہمیں مٹیریل باڑے سے لے کر دے، یعنی نقد رقم دےکر خریدے اور ہمارے ساتھ وہ اُدھار ریٹ طے کرلے جیسا کہ 3000 روپے ، تو کیا یہ بھی ٹھیک ہے ؟ منافع اس انویسٹر کے لیے یا ہمارے لیے سود تو نہیں کہلائیں گے ؟
(1)واضح رہے کہ اشیاء کی خرید و فروخت میں نقد خریداری کی طرح ادھار پر خریدنا بھی جائز ہے ،اسی بناء پر نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق رکھنے میں بھی شرعاًکوئی حرج نہیں ہے،بشرط یہ ہے کہ سودا کرتے وقت پیسوں کی ادائیگی کے وقت کے ساتھ کسی ایک قیمت کو(نقد وادھار کے اعتبار سے) بھی متعین کر دیاجائے،لہذااگر سودا کرتے وقت نقد ہو یا ادھار کسی ایک متعین قیمت پر سودا ہوجائے اور ادائیگی کا وقت بھی طے ہوجائے تو خریدار پر اسی متعین مدت پر طے شدہ قیمت ادا کرنا لازم ہوگی۔
(2) سامان نقد پر خرید کر اسےاپنے قبضہ میں لےکر آگے کسی اور کونفع کے ساتھ ادھار بیچنا شرعاً جائز ہے،لہذا صورت مسئولہ میں اگر کوئی انویسٹر خود مٹیریل خرید کر اپنے قبضہ میں لےکر آگے فیکٹری والوں کو ادھار زیادہ قیمت کے ساتھ فروخت کرے تو ایسا کرنا جائز ہےاور اس سے حاصل ہونے والا نفع حلال ہے،یہ سود کے حکم میں نہیں۔
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."
(کتاب البیوع،باب البیوع الفاسدۃ،ج13،ص8،ط؛دار المعرفۃ)
وفيه أيضاّ:
"فالبيع ما شرع إلا لطلب الربح والفضل فالفضل الذي يقابله العوض."
(كتاب البيوع، ج:12، ص:119، ط:دار المعرفة)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ومن اشترى شيئا وأغلى في ثمنه فباعه مرابحة على ذلك جاز."
(كتاب البيوع،الباب الرابع عشر في المرابحة والتولية، ج:3، ص:161، ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144609101451
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن