ہم دو بہنیں ہیں ،گھر والد صاحب کا ہے ،والد کا انتقال ہوچکا ہے اور والدہ کا بھی انتقال ہوچکا ہے ،گھر کے ڈاکومنٹ ماموں کے حوالے کردیے گئے ہیں ،جب ہماری والدہ بیمار تھی ،ماموں کا کہنا ہے کہ آپ کے والد کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے تو گھر کا حصہ آپ کے چچا اور تایا میں بھی تقسیم ہوگا ،کیا یہ صحیح ہے ؟گھر صرف ہمارے والد کا ہے اور ہم دو بہنیں ہیں ہمارا بھائی نہیں ہے ۔
صورت ِ مسئولہ میں چوں کہ مرحوم کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے ؛لہذا مرحوم کے ترکہ میں ان کے بہن بھائیوں کا بھی حق ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف: جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط۔"
(کتاب الفرائض ،باب العصبات،ج:۶،ص:۴۵۱،دارالفک
اگر مرحوم کے ترکہ کی تقسیم مطلوب ہے تو درج ذیل باتوں کی وضاحت فرماکر سوال دوبارہ ارسال فرمائیں :
مرحوم (والد)کے والدین حیات ہے یا نہیں ؟مرحومہ (والدہ)کے والدین حیات ہے یا نہیں ؟مرحوم کے بہن بھائی کل کتنے ہیں ؟اور مرحومہ کے بہن بھائی کل کتنے ہیں ؟
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310100928
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن