بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

نشے کی حالت میں طلاق دینے سے واقع ہوجاتی ہے


سوال

میرے شوہر کو شراب پینے کی عادت تھی، وہ شراب پی کر  نشہ کی حالت میں متعدد بار مجھے طلاق کے الفاظ کہہ چکا ہے، وہ طلاق کے لیے مجھے یہ الفاظ کہتا تھا  کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں نے تمہیں طلاق دے دی۔2016ء سے پہلے اس نے متعدد بار مجھے طلاق کےاس طرح کے الفاظ کہے لیکن میں اپنے شوہر سے علیحدہ نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک ساتھ ہی رہتے رہے، 2016ء سے میں اپنے شوہر سے الگ رہ رہی ہوں۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں مجھ پر طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ میرے لیے کسی دوسری جگہ نکاح کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کا بیان درست ہے کہ اس کا شوہر شراب پی کر نشہ کی حالت میں اسے (سوال میں مذکور) طلاق کے الفاظ کہا کرتا تھااور پہلی تین مرتبہ شوہر نے جب یہ الفاظ کہے ان تین مرتبہ میں سائلہ کی اپنے شوہر سےاتنے عرصے تک جدائی بھی نہیں ہوئی کہ جس میں سائلہ کی عدت (یعنی تین ماہواریاں اگر حمل نہیں تھا اور اگر حمل تھا تو بچے کی پیدائش تک کا وقت) گزر گیا ہو بلکہ سائلہ اور اس کا شوہر  ایک ساتھ ہی رہتے رہے تو جب پہلی تین مرتبہ شوہر نے مذکورہ جملہ کہا تو  اسی وقت  سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، سائلہ حرمتِ مغلظہ کے ساتھ اپنے شوہر پر حرام ہوگئی تھی، اس کے بعد  نہ تو رجوع کی گنجائش باقی رہی تھی اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی گنجائش تھی، سائلہ کا اس کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ رہنا شرعاً ناجائز اور حرام تھا، لہذا سائلہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے سابقہ فعل پر توبہ اور استغفار کرے۔

بس مذکورہ صورت میں چوں کہ سائلہ کا اپنے شوہر سے نکاح ختم ہوچکا ہے اور عدت بھی گزر چکی ہے اس لیے سائلہ اگر کسی دوسری جگہ نکاح کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے  دوسری جگہ نکاح کرنا  شرعاً جائز ہے۔تاہم مناسب یہی ہے کہ شوہر سے طلاق کی تحریر حاصل کرلی جائے تاکہ بعد میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط

(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب الاول، فصل فیمن یقع طلاقہ و فیمن لا یقع طلاقہ، ص: 353، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء

(فتاوی شامی، جلد3، کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمہ، ص: 239، ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية

(فتاوی ہندیہ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب السادس فی الرجعۃ، فصل فیما تحل بہ المطلقہ و ما یتصل بہ، ص: 473، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں