بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

نشہ کی حالت میں طلاق دینے کا حکم


سوال

میرا خاوند ساری رات نشے کی حالت میں گھر کا سامان توڑ پھوڑ کر باہر پھنکتا رہا حتی کہ سونے کے زیورات بھی اس نے باہر پھینک دیےتھے اور نشے کی ہی حالت میں پہلے مجھے ایک مرتبہ کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں اور پھر تھوڑی دیر بعد کمرے میں آکر مجھے تین بار کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔واضح رہے کہ میرا شوہر تین سال سے آئس نشے کا عادی ہے۔مزید اہم بات یہ کہ میرے شوہر نے شہر کے کسی مولوی صاحب سے پوچھا اور سوال میں کہا کہ طلاق دیتے وقت میرا ذہنی توازن درست نہیں تھا اس لیے مجھے پتہ بھی نہیں چلا کہ میں نے کتنی بار طلاق کا لفظ بولا تھا۔اورسوال میں نشہ کی حالت کا تو بالکل ذکر ہی نہیں کیا۔اور مولوی صاحب نے کہا کہ طلاق نہیں ہوئی۔حالانکہ کہ میں اللہ کو گواہ بناکر کہتی ہوں کہ میرے شوہر نے شدید نشے ہی کی حالت میں  مجھے تین طلاقیں دی ہیں۔شديد نشےاور غصے میں مجھے مارتے بھی رہے اور اس دوران انکی والدہ اور بھائی موجود تھے وہ بھی اور والد صاحب میرے شوہر کو فون پر مجھے طلاق دینے پر اکساتے بھی رہے۔ حضرت میرے دو بچےبھی ہیں  ان کی خاطر میں خاوند کے پاس جانا بھی چاہتی ہوں لیکن شریعت کا اگر حکم نہیں ہے تو میں ہرگز ناجائز اور حرام زندگی نہیں گزارنا چاہتی۔برائے مہربانی مجھے اپنے دین اسلام کا سچا راستہ بتادیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃ درست ہے اور   سائلہ کے شوہر نے نشہ کی حالت میں  پہلے ایک مرتبہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" اور پھر تین مرتبہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" کے الفاظ کہے ہیں  تو ان الفاظ سے سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ سائلہ اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی۔ اب رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش نہیں ہے۔ سائلہ اپنی عدت پوری کرنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران ...... (أو سكران) ولو بنبيذ أو حشيش أو أفيون أو بنج زجرا، وبه يفتى تصحيح القدوري واختلف التصحيح فيمن سكر مكرها أو مضطرا، ونعم لو زال عقله بالصداع أو بمباح لم يقع. وفي القهستاني معزيا للزاهدي أنه لو لم يميز ما يقوم به الخطاب كان تصرفه باطلا. اهـ

(قوله ليدخل السكران) أي فإنه في حكم العاقل زجرا له، فلا منافاة بين قوله عاقل وقوله الآتي أو السكران مطلب في الإكراه على التوكيل بالطلاق والنكاح والعتاق

(قوله أو سكران)......وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء، ويصح إسلامه كالمكره لإرادته لعدم القصد. وأما الهازل فإنما كفر مع عدم قصده لما يقول بالاستخفاف لأنه صدر منه عن قصد صحيح استخفافا بالدين بخلاف السكران"

(کتاب الطلاق ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۳۵،ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية"

(کتاب الطلاق، باب الرجعۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۴۷۲،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں