بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے ناقص جملے سے طلاق کا حکم


سوال

میری بیوی میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور مختلف بہانے بناتی ہے۔ ساتھ رہنے کے باوجود اس نے تین ماہ تک مجھے اپنے قریب آنے نہیں دیا۔ اگر میں کوشش کرتا تو مجھے دھکے دے کر گالیاں دیتی۔ اب پانچ مہینے سے وہ اپنے والدین کے گھر گئی ہوئی ہے، اور میں اس سے وہاں جا کر ملتا ہوں، جبکہ اس کے سسرال کا مکمل خرچ بھی میں برداشت کر رہا ہوں۔

مجھے معلوم ہوا کہ اس کے میرے ایک ساتھی کے ساتھ تعلقات ہیں، اور میں نے ان دونوں کے درمیان ہونے والے پیغامات بھی دیکھے ہیں۔ میری بیوی خود طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے، اور وہ ساتھی بھی کہہ رہا ہے کہ اس کے تعلقات ٹھیک نہیں، اس لیے اسے طلاق دے دو۔

ایک دن، میرے اسی ساتھی نے مجھے آئس پلائی اور نشے کی حالت میں غیرت دلائی کہ اگر تم اتنےغیرت مند ہو تو طلاق کیوں نہیں دیتے؟ ہمیشہ شکایتیں کرتے رہتے ہو۔ میں شدید غصے میں آ گیا۔ میں نے اپنی بیوی کو فون کیا، مگر وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی۔ جب اس نے فون اٹھایا تو کہنے لگی: "میں مصروف ہوں، کل بات کریں"۔ اور فون بند کر دیا۔

غصے کی شدت میں، میں نے میسج میں صرف یہ لکھ دیا کہ: "میں آپ کو طلاق، طلاق، طلاق"ـ۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس سے طلاق واقع ہو گئی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً  مذکورہ شخص نےمیسج میں  صرف اتناجملہ لکھا  ہو کہ  "میں آپکو  طلاق ، طلاق، طلاق" اور جملہ مکمل نہ کیا ہو تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی؛ کیوں کہ مذکورہ جملہ ایک نامکمل جملہ ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص.

(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالةً على معنى الطلاق من صريح أو كناية، فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكمًا؛ ليدخل الكتابة المستبينة، وإشارة الأخرس، والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله: أنت طالق هكذا، كما سيأتي وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي".

(‌‌كتاب الطلاق، باب ركن الطلاق،ج:3 ،ص: 230،ط:دار الفكر - بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها الإضافة إلى المرأة في صريح الطلاق حتى لو أضاف الزوج صريح الطلاق إلى نفسه بأن قال: أنا منك طالق، لايقع الطلاق وإن نوى."

(كتاب الطلاق ،فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة،ج:3,ص:141،ط: دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609102268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں