ایک شخص پر لاکھوں کا قرض ہے اور اس کی ادائیگی کی کوئی صورت نہیں ہے، اسی شخص کی بیوی کو اپنے والد کی میراث سے کچھ حصہ ملا ہے اور اس عورت نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر اس کو والد کی میراث سے حصہ ملا تو ایک دیگ خیرات کرے گی، اب جب کہ اس کا شوہر بھی صاحبِ ضرورت ہے تو کیا وہ اپنے شوہر کو دیگ کی قیمت دے سکتی ہے یا نہیں؟
جس طرح زکاۃ والدین، اولاد اور میاں بیوی ایک دوسرے کو نہیں دے سکتے اسی طرح نذر کا بھی یہ حکم ہے ، لہذا بیوی کے لیے نذر کی رقم شوہر کو دینا جائز نہیں، البتہ کسی اور مستحق شخص کو دینے سے نذر پوری ہو جائے گی ۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے :
"مصرف الزكاة و العشر: هو الفقير، وهو من له أدنى شيء ... و هو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر و غير ذلك من الصدقات الواجبة" .
(كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة والعشر، 339/2، ط: سعید )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101193
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن