ایک شخص کسی گناہ میں مبتلا ہے، اس نے بہت کوشش کی اس گناہ کو چھوڑنے کی لیکن وہ چھوٹ نہ سکی،پھر اس نے اپنے ساتھ یہ طے کیا کہ" اگر میں نے یہ گناہ کیا تو میں ایک روزہ رکھوں گا"،پھر اس سے وہ گناہ کئی بار ہوا،اور اس نے روزے بھی رکھے،لیکن وہ گناہ نہ چھوٹ سکا،پھر اس نے اپنے ساتھ یہ طے کیا کہ" اگر یہ گناہ دوبارہ ہوا تو تین روزے رکھوں گا"،اس کے باوجود وہ گناہ کرتا رہا،اور اس نے یہ تین روزے بھی بہت رکھے،یعنی جب گناہ کرتا تو تین رزے بھی رکھتارہا،لیکن وہ گناہ اس سے چھوٹا نہیں،اب اس بارے میں چند سوالات کے جوابات درکار ہیں:
1۔جو پہلی مرتبہ اس نےاپنے ساتھ ایک روزہ رکھنے کاطے کیا تھا،کیا وہ روزہ بھی اب دوسری مرتبہ کے تین روزوں کے ساتھ شامل ہےیا نہیں ؟یعنی ہر مرتبہ گناہ کرنے پر اس کے ذمہ تین روزے ہیں یا چار ؟
2۔اس نے بہت کوشش کی گناہ کو چھوڑنے کے لیے ایک ایک روزہ رکھ کر اور تین تین روزے رکھ کر،لیکن گناہ پھر بھی نہ چھوٹ سکا،اب کئی عرصہ ہوگیا ہے وہ گناہ کرتا رہا ہے لیکن اس نے روزے نہیں رکھےاور روزوں کی تعداد بھی معلوم نہیں ہے،اس صورتحال میں وہ کتنے روزے رکھے گا؟
3۔وہ ان دونوں باتوں کو ختم کرنا چاہ رہا ہے یعنی جو اس نے اپنے ساتھ طے کیا تھا کہ اگر یہ گناہ ہوگیاتو ایک روزہ رکھوں گااور تین روزے رکھوں گا،اس کو ختم کرنے کا کیا طریقہ ہوگا؟
4۔کیا وہ روزوں کی جگہ فدیہ وغیرہ دے سکتا ہے یا نہیں؟
1۔2۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نےیہ تعلیق کی تھی کہ" اگر میں نے یہ گناہ کیاتو ایک روزہ رکھوں گا"تعلیق کرنے کے بعدپہلی مرتبہ اس گناہ کے کرنے سے اس پر ایک روزہ لازم تھا، اس کے بعد دوبارہ گناہ کرنے سے اس پر کچھ لازم نہ تھا،اسی طرح جب اس نے یہ تعلیق کی تھی کہ" اگر میں نے یہ گناہ دوبارہ کیاتوتین روزے رکھوں گا"تو اس صورت میں بھی اس پر تعلیق کے بعدپہلی مرتبہ اس گناہ کے کرنے سےتین روزے لازم ہوئےتھے، اس کے بعد دوبارہ گناہ کرنے سے اس پر کچھ لازم نہ تھا،لہذابار بار گناہ کرنے کی وجہ سے اس شخص پر مزید روزے لازم نہیں ہوئے۔
3۔ تعلیق کے الفاظ میں جب تکرار اور دوام کے الفاظ ذکر نہ کیے گئےہوتو اس وقت تعلیق کا تعلق صرف پہلی مرتبہ کےفعل کے ساتھ ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ دونوں صورتوں میں تعلیق کرنے کے بعد پہلی مرتبہ گناہ کرنےکے بعد روزہ رکھنے کی وجہ سے دونوں شرطیں پوری ہوچکی ہیں۔
4۔واضح رہے کہ روزوں کے بدلے فدیہ دینااس شخص پر لازم ہوتاہے، جوبڑھاپے یا دائم المریض ہونے کی وجہ سے روزے رکھنے پر قادر نہ ہو اور نہ ہی مستقبل میں اس کی صحت کی کوئی امید ہو،البتہ تندرست وصحت مند آدمی کا روزوں کے بدلے فدیہ دینا جائز نہیں ہوتا ،تاہم صورتِ مسئولہ میں چونکہ مزید روزےلازم نہیں ہوئے تھے،اس لئےان کے بدلےفدیہ دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وفيها) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما فإنه ينحل بعد الثلاث) لاقتضائها عموم الأفعال كاقتضاء كل عموم الأسماء.....
(قوله: أي تبطل اليمين) أي تنتهي وتتم، وإذا تمت حنث فلا يتصور الحنث ثانيا إلا بيمين أخرى لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة نهر (قوله: ببطلان التعليق) فيه أن اليمين هنا هي التعليق (قوله: إلا في كلما) فإن اليمين لا تنتهي بوجود الشرط مرة، وأفاد حصره أن متى لا تفيد التكرار، وقيل تفيده والحق أنها إنما تفيد عموم الأوقات، ففي متى خرجت فأنت طالق المفاد أن أي وقت تحقق فيه الخروج يقع الطلاق ثم لا يقع بخروج آخر، وإن المقرونة بلفظ أبدا كمتى، فإذا قال إن تزوجت فلانة أبدا فهي كذا فتزوجها فطلقت ثم تزوجها ثانيا لا تطلق لأن التأبيد إنما ينفي التوقيت فيتأبد عدم التزوج ولا يتكرر."
(کتاب الطلاق،باب التعلیق،ج:3،ص:352،ط:سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق۔۔۔ولو قدر على الصيام بعد ما فدى بطل حكم الفداء الذي فداه حتى يجب عليه الصوم هكذا في النهاية."
(کتاب الصوم،الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار،ج:1،ص:207،ط:دارالفکر بیروت)
وفیه أیضا:
"وقد روي عن محمد - رحمه الله تعالى - قال: إن علق النذر بشرط يريد كونه كقوله إن شفى الله مريضي أو رد غائبي لا يخرج عنه بالكفارة كذا في المبسوط.ويلزمه عين ما سمى كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الأیمان،الباب الثاني فيما يكون يمينا وما لا يكون يمينا،الفصل الثاني في الكفارة،ج:2،ص:65،ط:دارالفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100341
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن