بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہرکا مقام اورنکاح کے منافع


سوال

میرا سسرال میرے میکے سے بہت دور ہے تقریبًا ایک دن ایک رات کی مسافت پر تو دل ہر وقت پریشان اور بوجھل رہتا ہے کہ شادی کے بعد والدین کی یاد ستاۓ گی ،جب یاد آۓ میں فورًا نہیں آسکوں گی اور یہ تب جب کہ میں اپنے خاندان کی لاڈلی ہوں ۔ تو براہ کرم اس کے کچھ منافع عرض کردیں جس سے دل کو سکون ہو کہ شادی کے بعد شوہر ہی سب کچھ ہوتا ہے ۔ تفصیل سے جواب دیجیے گا،  احادیث و سنت کی مثالیں بھی دیں!

جواب

رسول اللہ ﷺ کاارشادمبارک ہے: " عورت جب پانچ اوقات  میں نماز کی پابندی کرے اور  رمضان کے روزے رکھے  اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی خدمت کرے تو اس کو اجازت ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔" ایک اورروایت میں آتاہےکہ حضورﷺ نےارشادفرمایاکہ:"اگرمیں کسی کوحکم دیتاکہ اللہ تعالیٰ کےعلاوہ کسی کوسجدہ کرےتومیں بیوی کوحکم دیتاکہ اپنےشوہرکوسجدہ کرے۔" ایک روایت   میں  ہےکہ آپ ﷺنےارشادفرمایا:"فقیرومسکین ہےوہ عورت جس کاشوہرنہیں"، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نےپوچھا:یارسول اللہ،اگرچہ وہ عورت مال کےاعتبارسےمالدارہو؟توآپ ﷺنےجواب ارشادفرمایاکہ:"اگرچہ وہ مال کےاعتبارسےمال دارہو"۔

ایک خاتون نے ایک  عالمِ  دین سے پوچھا کہ جتنے بھی انبیاء  کرام علیہم السلام آئے ہیں سب مرد ہیں، اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نبی بناکر کیوں نہیں بھیجا؟ جواب میں  انہوں نے فرمایا کہ عورتیں نبی بن کر نہیں آئیں، لیکن انبیاء کو جنم دینے کا سہرا  ان ہی خواتین کے سروں پر ہے۔

اللہ تعالیٰ نےخواتین کوبڑی قربانیاں دینےوالی فطرت دی ہے، وہ ایسے امور سے خائف نہیں ہوتیں جن کواسلام  نے پسند کیاہو، بلکہ  عبادت کادرجہ دیاہو اور تقدیرِالہٰی سے طےشدہ ہوں۔ ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیےکہ  نکاح جیسی عظیم  عبادت کےحصول میں  دور وقریب کےفاصلےاورشیطانی وساوس کوتقدیرِالہٰی کےمقابلےمیں کچھ بھی اہمیت نہ دے،جب کہ موجودہ دَورمیں دُورکےفاصلے سمٹ گئےہیں،کسی کی زیارت مقصودہوتو مختصر وقت میں ہوسکتی ہے، حال احوال دریافت کیے جاسکتےہیں،جب کہ دَورِ صحابہ میں مکہ مکرمہ سےمدینہ منورہ کاسفرکئی دنوں میں طےکیاجاتاتھا، لیکن اس کےباوجود بہت  سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بیویاں جو اصلًا  مکہ مکرمہ کی تھیں  مدینہ منورہ میں اپنےشوہروں  کے ساتھ  رہائش پذیرتھیں، اور پہلی ہجرت جوحبشہ کی طرف ہوئی تھی اس میں بھی بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنی بیویوں سمیت ہجرت کی تھی اورمکہ مکرمہ وحبشہ کےدرمیان  کئی دنوں کا فاصلہ تھا۔

اللہ تعالیٰ سے زندگی میں عافیت،نکاح میں برکتیں آسانی والےمعاملےکی دعاکرنی چاہیے اور ہرمعاملےمیں صبروشکرجیسی اعلیٰ صفات اپنانی چاہیے اور نکاح کےمنافع جیسے:سنتِ نبوی پرعمل،عصمتِ نفس،شوہرکی خدمت اوراس پراجروثواب،اولادکی خواہش اوران کی نیک تربیت صدقہ جاریہ وغیرہ کوسامنےرکھ کردیگرشیطانی تخیلات سےبچناچاہیے۔الغرض شوہر قدردان ہوگا، یک جان ہوگے تو سب بھول جاؤگی۔

قرآن مجیدمیں ہے:

"هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّۗ" (سورة البقرة، الآية:187)         

ترجمہ:"وہ(بیویاں)تمہارے(بجائے)اوڑھنےبچھونے(کے)ہیں اورتم ان کے(بجائے)اوڑھنےبچھونے(کے)ہو"(از بیان القرآن للتھانویؒ)

سنن ابن سعید میں ہے:

"عن أبي نجيح قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مسكين مسكين، رجل ليست له امرأة» . قالوا: يا رسول الله، وإن كان غنيا من المال؟ قال: «وإن كان غنيا من المال» . وقال: «‌مسكينة ‌مسكينة ‌مسكينة، امرأة ليس لها زوج» . قالوا: يا رسول الله، وإن كانت غنية من المال؟ قال: «وإن كانت غنية من المال»".

(كتاب الوصايا، باب الترغيب في النكاح، ج:1، ص:163، ط:الدار السلفية ۔الهند)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «المرأة إذا صلت خمسها وصامت شهرها وأحصنت فرجها وأطاعت بعلها فلتدخل من أي أبواب الجنة شاءت» . رواه أبو نعيم في الحلية".

  (كتاب النكاح، باب القسم، ج:5، ص:1225، ط:دار الفكر)

وفیہ ایضا:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".

  (كتاب النكاح، باب القسم، ج:5، ص:1225، ط:دار الفكر)

زادالمعادمیں ہے:

"لما كثر المسلمون وخاف منهم الكفار اشتدَّ أذاهم لهم وفتنتهم إياهم، فأذِن لهم رسولُ الله صلى الله عليه وسلم في الهجرة إلى الحبشة، وقال: «إنَّ بها مَلِكًا لا يُظلَم الناسُ عنده». فهاجر من المسلمين اثنا عشر رجلًا وأربع نسوة، منهم عثمان بن عفان، وهو أول من خرج، ومعه زوجته رقية...فبلغهم أن قريشًا أسلمت، وكان هذا الخبر كذبًا، فرجعوا إلى مكة...ثم أذن لهم في الهجرة ثانيًا إلى الحبشة. فهاجر من الرجال ثلاثة وثمانون رجلًا..ومن النساء ثمان عشرة امرأةً".

(بدون الكتاب،  فصل في ذكر الهجرة الأولي والثانية، ج:1، ص:87، ط:دار ابن حزم)

البدایۃ والنہایۃ میں ہے:

"قلت: فعلى ما ذكره الزهري من أن الفتح كان يوم الثالث عشر من رمضان، وما ذكره أبو سعيد من أنهم خرجوا من المدينة في ثاني شهر رمضان، يقتضي أن مسيرهم كان ‌بين ‌مكة ‌والمدينة في إحدى عشرة ليلة.ولكن روى البيهقي، عن أبي الحسين بن الفضل، عن عبد الله بن جعفر، عن يعقوب بن سفيان، عن الحسن بن الربيع، عن ابن إدريس، عن محمد بن إسحاق، عن الزهري، ومحمد بن علي بن الحسين، وعاصم بن عمر بن قتادة، وعمرو بن شعيب، وعبد الله بن أبي بكر وغيرهم قالوا: كان فتح مكة في عشر بقيت من شهر رمضان سنة ثمان".

(غزوة الفتح الأعظم، ميقات خروج النبي صلي الله عليه وسلم، ج:6، ص:569، ط:دار هجر للطباعة والنشر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں