بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نکاح میں لفظِ قبول پیش کے ساتھ پڑھنا صحیح ہے یا زبرکے ساتھ؟


سوال

نکاح میں قبول کے لفظ میں قاف پر ضمہ آئے گا یا فتحہ؟یعنی قَبول پڑھنا صحیح ہے یا قُبول؟ اور ان دونوں کے کیا معنی ہے؟ اور ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ 

جواب

عربی لغت میں اس لفظ کا استعمال قاف کےفتحہ اورضمہ کےساتھ دونوں طرح سےموجودہےاورنکاح پررضامندی کااظہارکرتےہوئےقبول قاف کےفتحہ کےساتھ بولاجائےیاضمہ کےساتھ دونوں کاایک ہی معنی (رضامند ہونا) ہے، تاہم قاف کےفتحہ کےساتھ اس کااستعمال مشہورومعروف ہے۔

المفردات للراغب الاصفہانیؒ میں ہے:

"والتَّقَبُّلُ: قَبُولُ الشيء على وجه يقتضي ثوابا كالهديّة ونحوها...فَتَقَبَّلَها رَبُّها بِقَبُولٍ ولم يقل بتقبّل للجمع بين الأمرين: التَّقَبُّلِ الذي هو التّرقّيفي القَبُولِ، والقَبُولِ الذي يقتضي الرّضا والإثابة وقيل: القَبُولُ هو من قولهم:فلان عليه قبول: إذا أحبّه من رآه...والقَبُولُ:ريح الصّبا."

(المادة:قَبلُ، ص:653-654، ط:دار القلم)

الدرالمصون فی علوم الکتاب المکنون میں ہۓ:

"وقَبول من المصادر التي جَاءَتْ على فَعُول بفتح الفاء...يقال: قَبِلْتُ الشيء قَبولاً. وأجاز الفراء والزجاج ضمَّ القاف من قبول، وهو القياسُ كالدُّخول والخُروج، وحكاها ابن الأعرابي عن العرب: قبلته قَبولاً وقُبولاً فتح القاف وضمِّها سماعاً عن العرب، و «على وجهه قُبول» لا غيرُ، يعني لم يُقَلْ هنا إلا بالضم، وأنشدوا:والوجه عليه ‌القُبول ‌بضم ‌القاف كذا حكاهُ بعضُهم."

(سورة آلِ عمران، الآية:37، ج:3، ص:140، ط:دار القلم، دمشق)

لسان العرب میں ہے:

"وقال اللحياني: قبلت الهدية أقبلها قَبُولًا وقُبُولًا....،يُقَالُ: قَبِلْت الشيءَ قَبُولًا إِذا رَضِيته وتقبلت الشيء وقبلته قبولابفتح القاف، وهو مصدر شاذ، وحكى اليزيدي عن أبي عمرو بن العلاء: ‌القبول ‌بالفتح مصدر، قال: ولم أسمع غيره...وفي الحديث:ثم يوضع لهالقبول في الأرض، وهو بفتح القاف المحبة والرضا بالشيء."

(فصل القاف، ج:11، ص:540، ط:دار صادر، بيروت)

وفيه أيضاّ:

"والقَبُول من الرياح: الصبا لأنها تستدبر الدبور وتستقبل باب الكعبة. التهذيب: القبول من الرياح الصبا لأنها تستقبل الدبور. الأصمعي: الرياح معظمها الأربع الجنوب والشمال والدبور والصبا، فالدبور التي تهب من دبر الكعبة، والقبول من تلقائها وهي الصبا.....والقَبُول: ‌الحُسْن ‌والشَارة،وهو القبول بضم القاف أيضا، لم يحكها إلا ابن الأعرابيوإنما المعروف القبول بالفتح."

(فصل القاف، ج:11، ص:545، ط:دار صادر، بيروت)

التعریفات الفقہیۃ میں ہے:

"‌القبول ‌بالفتح والضم ثاني كلام من أحد العاقدين بعد الإيجاب لأجل إنشاء التصرف وبه يتم العقد."

(القاف، القبول، ص:170، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604100496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں