قاضی نے دلہن کے وکیل وسرپرست اور گواہوں کی موجودگی میں لڑکے سے پوچھا اے فلاں بن فلاں کیا آپ نے فلانہ بنت فلاں کو اتنے مہر کے ساتھ اپنے نکاح میں قبول کیا ؟اورلڑکے نے کہا کہ میں نےقبول کیا،قاضی نے وکالت نہیں لی اور پھر دعاکرادی،کیا نکاح ہوگیا؟
صورت ِمسئولہ میں جب نکاح خواں نے مجلس ِنکاح میں دلہن کے وکیل اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں خود ایجاب کرکے لڑکے سے قبول کروایا ہےاور وکیل نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو یہ نکاح شرعا ًمنعقد ہوگیاہے،اس لیےکہ نکاح خواں کو دلہن کے وکیل کی طرف سےدلالۃًوعرفاً اجازت ہوتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر
(قوله: من أحدهما) أشار إلى أن المتقدم من كلام العاقدين إيجاب سواء كان المتقدم كلام الزوج، أو كلام الزوجة والمتأخر قبول ح عن المنح."
(کتاب النکاح، ج: 3، ص: 9، ط: سعید)
وفیه أیضاً:
"قلت: وظاهره أنها لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضا يصح العقد وهي واقعة الفتوى؛ لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود، وإن لم يصرح باسمها كما إذا كانت إحداهما متزوجة، ويؤيده ما سيأتي من أنها لو كانت غائبة وزوجها وكيلها فإن عرفها الشهود وعلموا أنه أرادها كفى ذكر اسمها."
(کتاب النکاح، ج: 3، ص 15، ط: سعید)
فتح القدیر میں ہے:
"وعرف من تعريف الإيجاب والقبول بأنهما اللفظان الصالحان لإفادة ذلك العقد عدم الاختصاص بالعربية.
وعدم لزوم ذكر المفعولين أو أحدهما بعد دلالة المقام والمقدمات على الغرض لأن الحذف لدليل جائز في كل لسان، وعدم لزوم لفظ النكاح والتزويج، فعن هذا قلنا: إذا قالت زوجتك نفسي فقال قبلت، أو قال تزوجتك فقالت قبلت جاز ولا مفعول حتى لو كان القابل سفيرا ولا مفعول ولم يضفه إلى الموكل نفذ عليه."
(کتاب النکاح، ج: 3، ص: 190، ط: دار الفکر)
امداد الفتاوی میں ہے:
”سوال :وقت نکاح قاضی کو نام زوجہ کا لےکر مجمع عام میں پکار کر ایجاب وقبول کراناچاہئے یا کیا اور جو بدون نام لینے زوجہ کے ایجاب و قبول کرادے تو نکاح درست ہوگا یا نہیں ؟
الجواب: شرط جواز نکاح یہ ہے کہ منکوحہ زوج اور شاہدین کے نزدیک مجہول نہ رہے بلکہ اپنے غیر سے متمیز ہو جائے خواہ کسی طرح سے امتیاز ہو پس اگر منکوحہ حاضر ہے تو اس کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہے اور اگر غائب ہے تو اگر بدون تصریح نام کے بعض قیود سے اس کی تعیین ممکن ہے تو نام لینے کی حاجت نہیں اور اگر اوصاف سے تمیز نہ ہو تو اس کا نام لینا ضرور ہے بلکہ اگر اس کے نام سے بھی تعیین نہ ہوتو باپ دادے کا بھی ضروری ہے حاصل یہ ہے کہ رفع ابہام ہو جاوے۔“
(کتاب النکاح، ج: 2،ص:221،ط: دار الاشاعت)
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
”سوال: ایک شخص نے میانجی کو کہا کہ میں نے تجھ کو اجازت دی ہے، پھر میانجی نے مرد کو کہا کہ فلانی عورت تم نے قبول کی، اس نے کہا میں نے قبول کی اس صورت میں نکاح منعقد ہوا یا نہیں یہاں ایجاب و قبول میں صرف ایک جزو موجود ہے۔
الجواب : اس صورت میں نکاح منعقد ہو گیا کیونکہ میانجی وکیل ہے ولی دختر کی طرف سے پس میانجی نے جو کلام شوہر سے کیا کہ فلانی عورت کو تم نے قبول کیا یہ ایجاب ہے اور جب شوہر نے کہا میں نے قبول کیا تو یہ قبول ہوا پس دونوں رکن یعنی ایجاب و قبول پائے گئے اور مطلب میانجی کے کلام کا یہ ہے کہ میں نے فلانی عورت دختر فلاں شخص کی تمہارے نکاح میں دی تم نے اسکو قبول کی اس پر شوہر نے کہا کہ میں نے قبول کی، پس ایجاب و قبول پورا ہو ا۔“
(کتاب النکاح،ج:7، ص:105، ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100951
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن