بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نیٹ ورک مارکیٹنگ کا حکم


سوال

حلال چیزوں پر نیٹ ورک مارکیٹنگ ،ٹیم ورک بزنس پوائنٹ بنا نا، لوگوں کو ان کےفائد ے کےلیے پلیٹ فارم پر جمع کرنا، ان کو دعوت دینا،محنت کرنا، ٹیم بنانا جا ئز ہے؟

جواب

نیٹ ورک مار کیٹنگ میں کئی  مفاسد  پائے  جا تے ہیں جس  کی بناپر  نیٹ ورک مارکیٹنگ کرنے والے کمپنی کا ممبر شب اختیار کرنا ،دوسروں کو  اس میں شامل کرانا ،      اور اس کے ذریعے سے مالی فوائد حاصل کرنا جائز نہیں ہے ۔

(1)۔نیٹ ورک ماکیٹنگ میں  کمپنی سے ممبر شب حاصل کرنے  کے لیے کوئی چیز مثلاًمشین وغیرہ  اس  شرط پر   خریدنا  ضروری ہوتا ہے کہ   جس کی  کچھ قیمت نقد  اور کچھ قیمت  ادھار   پر  ہو  اور یہ  ادھار بھی  ممبر سازی  کے ساتھ مشروط ہوتی ہے  کہ  کمپنی کا یہ قرض  ممبر سے اس وقت ختم ہوگا،   جب یہ  ممبر  مزید دو ممبران  کو  اس  کمپنی  سے  متعارف کرواکر ممبر بنائےگا  اور مشین فروخت کرےگا جس سے انہیں بھی کمپنی کا  باقاعدہ  ممبر شب حاصل ہوجائےگی  اوران   دو ممبران کے ساتھ بھی  یہی نقد و ادھار کا معاملہ چلے گا، پھر یہ  سلسلہ غیر محدود حد تک  بڑھتا چلا جائےگا  ، شریعت   میں یہ قرض سود ہونے کی بناپر حرام ہے، البتہ اگر مشین  وغیرہ  کی پوری  قیمت یک مشت ادا کر کے  حاصل کی جائے تو یہ  جائز ہے  ۔

(2 )۔نقد کے ساتھ ادھار کا یہ معاملہ جس کی وصولیابی  کے لیے کمپنی ممبر سازی کی شرط لگا کر مالی فوائد حاصل کرتی ہے شرعام ناجائز ہے ۔

(3 ،4)۔ہر  ممبر کو بلاواسطہ( ڈائرکٹ) ممبر بنانے پر جو کمیشن ملتا ہے وہ اپنی محدود مقدار تک جائز ہے ، لیکن بالائی ممبر کو بالواسطہ (ان ڈائرکٹ) ممبران پر جو کمیشن ملتا ہے وہ ناجائز اور حرام ہے ، کیوں کہ اس سے حاصل ہونے والا کمیشن سود اور قمار ہے۔

(5  )۔ممبر سازی کی اس دورڑمیں جو مخصوص سہولیات مثلا موبائل فون،گولڈمیڈل، گاڑی  وغیرہ اور اس کے علاوہ دیگر سہولیات کمپنی کی طرف سے انعام نہیں ہے ، بلکہ کمپنی کے قانونی مجبوری اور اصولی پابندی ہے جو انعام کی تعریف سے خارج ہے ، کیوں کہ ان سہولیات کا دارومدار ممبر سازی کے ان منافع اور کمیشن پر ہے جو کمپنی کو حاصل ہوتا ہے،  لہذا اس ناجائز طریقہ کاروبار سے حاصل ہونےوالے  سہولیات بھی    ناجائز ہوں گی ،الغرض کمپنی مذکورہ کا یہ سلسلہ کاروبار صرف ایک محدود حد تک تو بقدر ضرورت جائز ہے، یعنی بلاواسطہ( ڈائرکٹ) ممبران پر حاصل ہونے والی اجرت تو جائز ہے، لیکن چوں کہ اس اسکیم میں شامل ہونے کی صورت میں اس کے تمام قواعد و ضوابط کی پابندی ضروری ہے،  جب کہ اس صورت میں اس مخصوص دائرہ جواز کے ساتھ ناجائز اور حرام کا ارتکاب بھی کرنا پڑتا ہے جس کی بنا پر حلال و اور حرام کا اختلاط ہوتا ہے اور شریعت  نے حلال وحرام کے اختلاط کی صورت میں حرام ہی کو ترجیح دے کر حرمت ہی کا حکم لگایا ہے،  اس لیے مجموعی لحاظ سے اس کمپنی کے ممبر شب اختیار کرنے اور اس کے ذریعے مالی فوائد حاصل کرنے کو جائز نہیں کہا جا سکتا۔

مسند احمد میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحد."

(ج:6،ص:324،ط :موسسةالرسالة)

البنایہ شرح الہدایۃ میں ہے:

"وقد نهى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن بيع الملامسة والمنابذة. ولأن فيه تعليقًا بالخطر."

شرح :

م: (تعليقًا) ش: أيتعليق التمليكم: (بالخطر) ش: وفي " المغرب "، الخطر: الإشراف على الهلاك، قالت الشراح: وفيه معنى القمار؛ لأن التمليك لايحتمل التعليق لإفضائه إلى معنى القمار".

(ج:8،ص:158، ط :دارالكتب العلمىة)

الموسوعة الفقهیة   میں ہے :

"وقال المحلي: صورة القمار المحرم التردد بين أن يغنم وأن يغرم".

(ج:39،ص:404،ط:الوزارۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں