بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نئے مسلک کی بنیاد رکھنا


سوال

 مسلک کی بنیاد پر اجتماعیت یا جماعت کے قیام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

ائمہ اربعہ کی تقلید اور ان کے مسالک کو ترک کرکے علیحدہ مسلک کی بنیاد رکھنا اور اس کی بنیاد پر جماعت کا قیام شرعا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ تکوینی طور پر اللہ رب العزت نے دین فہمی و نصوصِ شرعیہ سے استنباطِ مسائل کا جو ملکہ ان حضرات کو عطا کیا تھا، وہ ان کے بعد  والوں میں سے کسی کو حاصل نہ ہوا، اور ان حضرات کے مسالک کو جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی  وہ کسی اور  مجتہد عالم کو حاصل نہ ہوئی،  یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ فقہ کے مقلدین  میں بڑے بڑے محدثین کے نام ملتے ہیں جو احادیث سے مسائل استنباط کرنے میں، اور ان پر  عمل کرنے میں  ان چاروں  ائمہ کی  فقہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے تھے، اس کے باوجود انہوں نے کسی جدید مسلک کی بنیاد نہیں رکھی،اور  ان حضرات فقہاءِ کرام کے مقلدین  ساری دنیا میں موجود ہیں  اور تعلیمِ دین اور دین پر صحیح طریقہ پر عمل کرنے میں مصروف ہیں؛  پس ان ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کرنا اور اپنے آپ کو  قرآن و حدیث سے آزادانہ طور  پر از خود مسائل سمجھنے  اور ان سے مسائل استنباط  کرنے کے قابل سمجھنا،  ناسمجھی، خودپسندی اور کم علمی کی دلیل ہے،  یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد  عموماً بعض روایات کو سامنے  رکھ  کر  بقیہ نصوصِ شرعیہ کو پس پشت ڈال کر ایسے ایسے مسائل بیان کرتے ہیں جو اجماعِ صحابہ و اجماعِ امت کے صریح خلاف ہوتے ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے مسلک کی تقلید امر لازمی ہے،  اس کے علاوہ کسی نئے مسلک کی بنیاد  اتباع ہوی النفس کی بنیاد پر انہی مسالک کے متفرق اقوال پر ہوگی،جس کو شریعت کی پیروی نہیں کہا جاسکتا، بلکہ اپنی اغراض و ہویٰ کا اتباع ہوگا، جو باجماع امت حرام ہے۔

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:

"إن هذه المذاهب الأربعة المدونة المحررۃ قد اجتمعت الأمة، أو من یعتد به منها علی جواز تقلیدها إلی یومنا هذا، وفي ذلک من المصالح مالا یخفی، لا سیما في هذہ الأیام التي قصرت فيها الهمم جدا واشربت النفوس الهوی، وأعجب کل ذی رأي برأيه."

( ج1، ص154، ط: مکتبه حجاز)

العقد الجید میں ہے:

"ولما اندرست المذاهب الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعاً للسواد الاعظم، و الخروج عنها خروجاً عن السواد الأعظم."

(ص13،ط؛مکتبہ اشرفیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100161

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں