نک نام سے بچوں کو پکارنا جائز ہے یا نہیں ؟
نام اگر پیار سے گھٹا، بڑھا لیے جائیں اور اس کا مقصد محبت کا اظہار ہو، اور جس کو پکارا جائے وہ بھی اس کو محبت ہی تصور کرتا ہو، اور اس سے اس کی توہین مقصود نہ ہو اور اس سے معنی میں فساد نہ آئے تو اس کی گنجائش ہے، تاہم اگر کسی کے نام کا جز اللہ یا اس کے رسول کا نام ہو تو اسے اس طرح بگاڑنے میں مقدس ناموں کی بے احترامی کا شبہ ہے؛ اس لیے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ باقی محض کسی کو حقیر ثابت کرنے یا اس کی تذلیل کرنے کے لیے اس کا نام بگاڑنا جائز نہیں ہے۔
نیز اس میں یہ بھی رعایت رکھنی چاہیے کہ یہ تخفیف والا نام اس قدر غالب نہ ہوجائے کہ لوگوں کو اصل نام بھی معلوم نہ ہوسکے، اس لیے مستقل ہی اس طرح نام سے پکارنا مناسب نہیں ہے۔
المجموع شرح المهذب (8/ 442):
"(الثامنة): اتفقوا على جواز ترخيم الاسم المنتقص إذا لم يتأذّ بذلك صاحبه ثبت أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم (رخّم أسماء جماعة من الصحابة، فقال لأبي هريرة: يا أباهر، ولعائشة: يا عائش، ولأنجشة: يانجش ".
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144205200914
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن