آج صبح جب میں دفتر جانے کے لیے اٹھا تو میری اہلیہ اپنی ماں کے ہاں جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی، حالاں کہ میں رات کو یہ کہہ کر سویا تھا کہ صبح میں آپ کو لے کر نہیں جاؤں گا، بلکہ دفتر سے واپس آکر لے جاؤں گا، اور اس کے بعد بیوی نے صبح جانے کا نہیں کہا، مگر وہ اپنی عادت کے مطابق صبح حسب معمول جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی، اس بات پر ہم دونوں کے درمیان تھوڑی سی نوک جھونک ہوئی اور مجھے اچانک غصہ آیا، پھر میری اہلیہ نے کہا کہ ’’چھوڑ آئیں نا مجھے‘‘، تو میں نے انہیں کہا کہ ’’آج تو چھوڑ رہا ہوں، مگر آج کے بعد تم نے مجھ سے صبح جانے کی ضد کی تو اپنی سزا خود بتا دو‘‘۔ پھر میں نے بیوی سے کہا کہ ’’تم یہ کہو کہ اگر آج کے بعد میری مرضی کے بغیر تم نے مجھ سے جانے کی بات کی تو تم میرے نکاح سے فارغ ہو۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ اس وقت میرے لیے کیا حکم ہے؟ اگر وہ دوبارہ یہ ضد کرتی ہے تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ یا پھر جب تک تین مرتبہ مخصوص الفاظ ادا نہیں ہوتے، تب تک طلاق واقع نہیں ہوگی؟ اور ابھی ہمارانکاح برقرارہے یا نہیں؟ اور آگےاحتیاط کے طور پر ہم کو کیا کرنا چاہیے ؟
صورتِ مسئولہ میں آپ کا بیوی کو یہ کہنا کہ ’’تم یہ کہو کہ اگر آج کے بعد میری مرضی کے بغیر تم نے مجھ سے جانے کی بات کی تو تم میرے نکاح سے فارغ ہو‘‘ نہ تفویضِ طلاق ہے اور نہ ہی تعلیقِ طلاق،لہذا اگر بیوی آئندہ جانے کی ضد کرے گی تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، آئندہ کے لیے اس قسم کی بات کہنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(الفصل الأول في الاختيار) إذا قال لامرأته اختاري ينوي بذلك الطلاق أو قال لها طلقي نفسك فلها أن تطلق نفسها ما دامت في مجلسها ذلك وإن تطاول يوما أو أكثر ما لم تقم منه أو تأخذ في عمل آخر وكذا إذا قام هو من المجلس فالأمر في يدها ما دامت في مجلسها."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث في تفويض الطلاق، الفصل الأول في الاختيار، 387/3، ط: دار الفکر)
وفيه أيضاً:
"وإن قال لها: طلقي نفسك متى شئت فلها أن تطلق في المجلس وبعده ولها المشيئة مرة واحدة وكذا قوله: متى ما شئت وإذا ما شئت ولو قال: كلما شئت كان ذلك لها أبدا حتى يقع ثلاثا كذا في السراج الوهاج."
(كتاب الطلاق، الباب الثالث في تفويض الطلاق، الفصل الثالث في المشيئة، 403/3، ط: دارالفکر)
شرح سنن ابن ماجه للسيوطي ميں ہے:
"إنما الطلاق لمن أخذ بالساق كناية عن الجماع أي انما يملك الطلاق من يملك الجماع فليس للسيد جبر على عبده إذا انكح أمته (إنجاح)."
(باب العزل العزل هو أن يجامع فإذا قارب الإنزال نزع و أنزل خارج الفرج، ص: 151، ط: قديمي كتب خانة - كراتشي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) بناء على اعتبار الزوج المذكور (لا يقع طلاق المولى على امرأة عبده) لحديث ابن ماجه : الطلاق لمن أخذ بالساق: إلا إذا قال زوجتها منك على أن أمرها بيدي أطلقها كما شئت."
(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، مطلب في تعريف السكران وحكمه، 242/3، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100310
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن