چار سال قبل میرے بھائی نے اپنے بیٹے کے لیے میری بیٹی کا ہاتھ مانگا ہم نے انکار کیا،ایک مرتبہ جب ہم گاؤں میں میری ماں کے گھر گئے تو میرے بھائی نے اصرار کرنا شروع کیا کہ اس کا رشتہ ہمیں دے دو،نہ ماننے پر انہوں نے مجھےمارا،جس سے میں بے ہوش ہوگئی،انہوں نے میرے شوہر کو جو اس وقت زندہ تھےٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی،اور قاضی کو بلا کر میری بیٹی کو گھونگھٹ میں بیٹھا کر اس کا زبردستی انگوٹھا لگوایا اور بھابھی نے میری بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کی گردن ہلوائی،ہم سب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں،مجھے کراچی روانہ کردیامجھ سے کہا کہ جہیز کا انتظام کرو اور وہاں گاؤں میں میری بیٹی کو روک دیا ،ہم نے کراچی سے اس سے رابطہ رکھا اور بیٹی کو ان کی قید سے چھڑایا،سوال یہ ہے کہ اس نکاح کی کیا حیثیت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً زبردستی زدکوب کرکےسائلہ کی بیٹی کا سائلہ کے مذکورہ بھتیجے کے ساتھ نکاح کروایا گیا تھا اور سائلہ کی بیٹی اس نکاح پر راضی نہیں تھی، اور نکاح کے وقت کسی بھی اعتبار سے اس نکاح کی اجازت نہیں دی تھی،بلکہ سائلہ کی بھابھی نے ہی اپنے ہاتھ سے سائلہ کی بیٹی کا سر ہلوایا تو شرعی اعتبار سے یہ نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہواتھا،لہذاسائلہ کی بیٹی جس جگہ چاہے نکاح کرسکتی ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’(وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي والإيجاب ما يتلفظ به أولا من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية.‘‘
(كتاب النكاح، ج: 1، ص: 267، ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
’’(وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما.
(قوله: ليتحقق رضاهما) أي ليصدر منهما ما من شأنه أن يدل على الرضا إذ حقيقة الرضا.‘‘
(كتاب النكاح، 21/3، ط: سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101837
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن