بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نکاح نامہ میں لکھے جانے والی مہر کی مالیت کا حکم


سوال

میں نے طلاق کے حوالہ سے آپ کے دار الافتاء میں ایک استفتاء جمع کروایا تھا، جس کا فتویٰ نمبر: 144605101951 ہے، جو کہ مجھے موصول ہوچکا ہے، اس فتوے میں طلاق واقع ہونے کا حکم بتایا گیا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ نکاح میں حقِ مہر کے طور پر ”چھ تولہ سونا“ مقرر کیا گیا تھا، جس کی مالیت نکاح کے وقت 318,000 (تین لاکھ اٹھارہ ہزار) روپے تھی، تو کیا اب طلاق کے بعد میں چھ تولہ سونا دینے کا پابند ہوں یا اُس وقت چھ تولہ سونے کی جو قیمت 318,000 تھی وہی دینے کا پابند ہوں؛ کیونکہ اگر چھ تولہ سونا ہی دینا تھا، تو نکاح نامہ میں اس کی مالیت کیوں لکھی گئی؟

مہر سے متعلق نکاح نامہ میں درج عبارت یہ ہے: ”مہر کی رقم: چھ تولہ سونا، جس کی مالیت 318,000، (چار تولہ سونا نقد، بقیہ عند الطلب)۔“ نیز نکاح نامہ کی کاپی سوال کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ از روئے شرع نکاح میں وہی مہر معتبر ہوتا ہے جو  فریقین باہمی رضا مندی سےطے کرتے ہیں، اور شوہر پر اسی مقرر شدہ مہر کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، اس کے علاوہ بطورِ وضاحت عمومًا مہر کی جو مالیت لکھی جاتی ہے مہر کی تقرری کے سلسلے میں شرعًا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں منسلکہ نکاح نامہ کی رو سے آپ پر مقرر شدہ مہر یعنی چھ تولہ سونا ہی ادا کرنا لازم ہے، اگر آپ باہمی رضامندی سے سونے کے بدلے رقم ادا کرنا چاہتے ہیں تو بوقتِ ادائیگی ان چھ تولہ سونے کی جو مارکیٹ ویلیو ہوگی، اسی حساب سے رقم ادا کرنےکے پابند ہوں گے۔ باقی نکاح نامہ میں چھ تولہ سونے کی جو مالیت (318,000) لکھی گئی ہے، وہ اُس وقت کے حساب سے اس قدر سونے کی جو مارکیٹ قیمت تھی، اس کی وضاحت کے لیے لکھی گئی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج.

وفي الرد: (قوله ويجب الأكثر) أي بالغا ما بلغ فالتقدير بالعشرة لمنع النقصان (قوله ويتأكد) أي الواجب من العشرة لو الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه."

(کتاب النکاح ، باب المھر، ج:3،  ص:102، ط:ایج ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"(ثم الأصل) في التسمية أنها إن صحت وتقررت يجب المسمى ثم ينظر إن كان المسمى عشرة فصاعدا؛ فليس لها إلا ذلك، وإن كان دون العشرة يكمل عشرة عند أصحابنا الثلاثة وإذا فسدت التسمية أو تزلزلت يجب مهر المثل."

(کتاب النکاح، الباب السابع في المهر، الفصل الأول، ج:1، ص:303، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606101705

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں