بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نکاح اور نماز جنازہ پڑھانے کا حق دار کون ہے؟


سوال

ہمارے گاؤں میں سات جامع مساجد ہیں،ان میں سے ہر جامع مسجد کے آس پاس دو یا تین غیر جامع مساجد ہیں،پہلے ان مساجد میں نکاح اور جنازہ جامع مسجد کے خطیب پڑھایا کرتے تھے،لیکن اب کچھ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان مساجد میں جامع مسجد کے خطیب جنازہ اور نکاح نہ پڑھائے،بلکہ اس مسجد کے امام صاحب  جنازہ اور نکاح خود پڑھائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ ان مساجد  میں جنازہ اور نکاح شرعاً کس کو پڑھانا چاہیئے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جنازے کی نماز پڑھانےکا حق محلہ کے امام کا ہے،البتہ اگر میت کا ولی جامع مسجد کے امام یا کسی اور شخص کو پڑھانے کا کہہ دے،اور وہ نمازِ جنازہ پڑھائے،تو بھی درست ہوگا۔

نیز نکاح پڑھوانے والے دونوں مساجد کے ائمہ میں سے جس سے نکاح پڑھوانا چاہیں پڑھوا سکتے ہیں،اس میں کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہے،البتہ اگر جامع مسجد کا خطیب اس کو اپنا حق سمجھتا ہو،اور کسی اور کو پڑھانے نہ دیتاہو،تو اس کے لیے اس طرح کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقدم في الصلاة عليه السلطان) إن حضر (أو نائبه) وهو أمير المصر (ثم القاضي) ثم صاحب الشرط ثم خليفته ثم خليفة القاضي (ثم إمام الحي) فيه إيهام، وذلك أن تقديم الولاة واجب، وتقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي، وإلا فالولي أولى كما في المجتبى وشرح المجمع للمصنف.۔۔۔(ثم الولي) بترتيب عصوبة الإنكاح إلا الأب  فيقدم على الابن اتفاقا إلا أن يكون عالما والأب جاهلا فالابن أولى."

(قوله: ثم إمام الحي) أي الطائفة وهو إمام المسجد الخاص بالمحلة، وإنما كان أولى لأن الميت رضي بالصلاة خلفه في حال حياته، فينبغي أن يصلي عليه بعد وفاته. قال في شرح المنية: فعلى هذا لو علم أنه كان غير راض به حال حياته ينبغي أن لا يستحب تقديمه. اهـ. قلت: هذا مسلم إن كان عدم رضاه به لوجه صحيح، وإلا فلا، تأمل. (قوله: فيه إيهام) أي في كلام المصنف إيهام التسوية في الحكم بين تقديم المذكورين، لكن القاعدة الأصولية أن القرآن في الذكر لا يوجب الاتحاد في الحكم تأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج:2، ص:220، ط:ایچ ایم سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك (و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال، فالأول الأمر (كزوجني) أو زوجيني نفسك أو كوني امرأتي فإنه ليس بإيجاب بل هو توكيل ضمني (فإذا قال) في المجلس (زوجت) أو قبلت أو بالسمع والطاعة بزازية قام مقام الطرفين وقيل هو إيجاب ورجحه في البحر."

(کتاب النکاح، ص:177، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں