میں نے نکاح فارم خریدا اور ایک لڑکی سے اس پر دستخط کروالیے، لیکن میں نے خود دستخط نہیں کیے اور اس وقت کوئی گواہ بھی موجود نہیں تھا۔ بعد میں جب گھر والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے اعتراض کیا کہ تم نے اس لڑکی سے نکاح کر لیا ہے، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اب میں اس لڑکی سے باقاعدہ نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ شرعاً اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟
واضح رہے کہ نکاح کے انعقاد کے لیے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کا ہونا شرعا ضروری ہوتا ہے، محض نکاح نامہ پر دستخط کردینا نکاح منعقد ہونے کے لیے کافی نہیں ، لہذاصورتِ مسئولہ میں گواہوں کی موجودگی میں شرعی ضابطہ کے مطابق با قاعدہ نکاح کا ایجاب و قبول کیے بغیر مذکورہ لڑکی سے رشتہ رکھنا حرام ہوگا، پس سائل اور مذکورہ لڑکی اگر میاں بیوی کے رشتہ میں رہنا چاہتے ہوں، تو مہر مقرر کرکے گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب و قبول کرکے نکاح کرنا ضروری ہوگا۔
فتاوی عالمگیریہ میں ہے :
"(وأما شروطه) ... (ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام. فلا ينعقد بحضرة العبيد ولا فرق بين القن والمدبر والمكاتب ولا بحضرة المجانين والصبيان ولا بحضرة الكفار في نكاح المسلمين هكذا في البحر الرائق."
(کتاب النکاح، الباب الأول، ج:1، ص:267، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
الدرالمختارمع ردالمحتار میں ہے:
"قوله: وينعقد) قال في شرح الوقاية: العقد ربط أجزاء التصرف أي الإيجاب والقبول شرعا لكن هنا أريد بالعقد الحاصل بالمصدر، وهو الارتباط لكن النكاح الإيجاب والقبول مع ذلك الارتباط، إنما قلنا هذا؛ لأن الشرع يعتبر الإيجاب والقبول أركان عقد النكاح لا أمورا خارجية كالشرائط."
(کتاب النکاح، ج:3، ص: 9، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101971
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن