1۔ایک شخص کا انتقال ہوا،ورثاء میں ایک بیوہ،ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے،مرحوم کا بیٹا ذہنی معذور ہےاس کو والد صاحب کے ترکہ میں سے حصہ ملے گا یا نہیں؟
2-اس معذور کے حصے کی رقم کاروبار میں لگاسکتے ہیں یا نہیں؛تاکہ اس کے منافع سے اس پر خرچ کیا جاسکے۔
3۔اگر کاروبار میں نہیں لگاسکتے تو اس معذور بیٹے کا خرچہ کس کے ذمہ ہوگا؟والدہ کے ذمہ ہوگا یا چچاؤں کے ذمہ ہوگا؟
4۔اور معذور بیٹے کو جو حصہ ملے گا اس پر زکات ہوگی یا نہیں؟
5۔والدہ معذوربیٹے کی رقم پر ولی بن سکتی ہے یا نہیں کہ والدہ اس کے حصے کی رقم کو جہاں چاہے کاروبار میں لگائے ۔
وضاحت :لڑکا ذہنی طور پر مکمل معذور ہے ،39/40 سال عمر ہوگئی ہے۔
1۔والد مرحوم کی میراث میں ذہنی معذور بیٹے کو اس کا شرعی حصہ ملے گا ،والد مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ (تجہیزو تکفین کے اخراجات)ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اور مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے تہائی حصہ میں سے اسے نا فذ کرنے کے بعد باقی تمام ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے تین حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14حصے مرحوم کے بیٹے کو اور 7 مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت:24/8
بیوہ | بیٹا | بیٹی |
1 | 7 | |
3 | 14 | 7 |
یعنی سو روپے میں سے 12.50 روپے مرحوم کی بیوہ کو 58.33 روپے مرحوم کے بیٹے کو اور 29.17 روپے مرحوم کی بیٹی کو ملیں گے۔
2،3،5۔ نابالغ بچے یا ذہنی معذور بچے کے باپ کے انتقال کے بعد اُس کے مالی معاملات کا ذمہ دار وہ شخص ہوتا ہے جس کو باپ نے انتقال سے پہلے مقرر کیا ہو، اسے اصطلاح میں ’’وصی‘‘ کہتے ہیں، اگر ایسا کوئی ’’وصی‘‘ مقرر نہ کیا ہو تو بچے کا ولی اس کا دادا ہوتا ہے، اگر دادا نہ ہو تو دادا کا مقرر کردہ شخص یعنی ’’وصی‘‘ اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہوتا ہے، اگر ”وصی“ بھی نہ ہو تو قاضی بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار مقرر کرے گا، اور قاضی کی عدمِ موجودگی کی صورت میں خاندان کے نیک اور معززلوگ جس شخص کو بچے کے مالی معاملات دیکھنے کے لیے مقرر کر دیں وہی اس بچے کے مالی معاملات کا ذمہ دار ہو گا۔
نابالغ یتیم بچوں کے ولی(باپ کا وصی یا وصی کا وصی اور اگر وہ بھی نہ ہو تو دادا) کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ یتیم بچوں کے مال کو کاروبار میں لگادے، بشرطیکہ اس کا شمار بچوں کے خیرخواہوں میں ہوتا ہو، اور اگر دادا نہ ہو تو دادا کے وصی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے اور پھر دادا کے وصی کے وصی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے۔ ان سب کے نہ ہونے کی صورت میں قاضی وقت یا اس کے وصی کو یتیم کے مال میں تصرف کا حق ہوتا ہے، ان کے علاوہ کسی کو شرعاً حق نہیں، خواہ وہ ماں ہو۔
فتاوی شامی میں ہے:
(و وليه أبوه ثم وصيه) بعد موته ثم وصي وصيه كما في القهستاني عن العمادية (ثم) بعدهم (جده) الصحيح وإن علا (ثم وصيه) ثم وصي وصيه قهستاني زاد القهستاني والزيلعي ثم الوالي بالطريق الأولى (ثم القاضي أو وصيه) أيهما تصرف يصح فلذا لم يصح ثم (دون الأم أو وصيها) هذا في المال
و في الرد: قوله ( دون الأم أو وصيها ) قال الزيلعي و أما ما عدا الأصول من العصبة كالعم والأخ أو غيرهم كالأم و وصيها وصاحب الشرطة لا يصح إذنهم له لأنهم ليس لهم أن يتصرفوا في ماله تجارة فكذا لا يملكون الإذن له فيها والأولون يملكون التصرف في ماله فكذا يملكون الإذن له في التجارة اه قوله ( هذا في المال ) ليس على إطلاقه ففي وكالة البحر عن خزانة المفتين وليس لوصي الأم ولاية التصرف في تركة الأم مع حضرة الأب أو وصيه أو وصي وصيه أو الجد وإن لم يكن واحد ممن ذكرنا فله الحفظ وبيع المنقول لا العقار والشراء للتجارة وما استفاده لصغير من غير مال الأم مطلقا وتمامه فيها اه لكن بيع المنقول من الحفظ قال في السابع والعشرين من جامع الفصولين ولو لم يكن أحد منهم فلوصي الأم الحفظ وبيع المنقول من الحفظ وليس له بيع عقاره ولا ولاية الشراء على التجارة إلا شراء ما لا بد منه من نفقة وكسوة وما ملكه اليتيم من مال غير تركة أمه فليس لوصي أمه التصرف فيه منقولا أو غيره وتمامه فيه فراجعه ( كتاب الحجر ٦/ ۱۷۵ ط: سعيد)
4۔ذہنی معذور کی عقل اگر سالم نہیں اور وہ نماز ،روزے زکات کی تمیز بالکل نہیں رکھتا تو اس صورت میں وہ شریعت کے احکام کا مکلف نہیں ہے ،یعنی اس پر نماز، زکات ،روزہ اور دیگر عبادات فرض نہیں ہیں۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102609
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن