نکاح کے بعد،اگر دو معتبر گواہوں کی شہادت سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائےتو کیا نکاح باقی رہتا ہےیا نہیں؟اور اگر تفریق لازم ہو،تو فریقین کے درمیان تفریق کا شرعی طریقہ کیا ہو گا؟نیز یہ تفریق کون کروائے گا؟برائے کرم شریعت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں نکاح کے بعد،اگر دو معتبر گواہوں کی گواہی سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائےتو اس سے نکاح فاسد ہو جاتا ہے، حرمت رضاعت ثابت ہو جانے کے بعد لڑکے اور لڑکی پر فوری علیحدگی لازم ہے ۔تاہم اس صورت میں جدائی کا طریقہ یہ ہے کہ لڑکا،لڑکی کو ان الفاظ سے جدا کردےکہ میں نے تجھے چھوڑ دیا ، میرا تیرے ساتھ کوئی تعلق نہیں،تیرا راستہ الگ ہے وغیرہ ۔ان الفاظ سے جدائی واقع ہو جائے گی اور عدت گزرنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح میں آزاد ہو گی ۔
المبسوط للسرخسی میں ہے :
"(قال:) ولايجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبيةً كانت أو أم أحد الزوجين، ولايفرق بينهما بقولها، ويسعه المقام معها حتى يشهد على ذلك رجلان أو رجل وامرأتان عدول، وهذا عندنا".
(باب الرضاع، ج:5،ص:137، ط: دار المعرفة)
البحر الرائق شرح ِ کنزالدقائق میں ہے:
"«والتفريق في النكاح الفاسد إما بتفريق القاضي أو بمتاركة الزوج ولا يتحقق الطلاق في النكاح الفاسد بل هو متاركة فيه ولا تحقق للمتاركة إلا بالقول إن كانت مدخولا بها كقوله تاركتك أو تاركتها أو خليت سبيلك أو خليت سبيلها أو خليتها، وأما غير المدخول بها فتتحقق المتاركة بالقول وبالترك عند بعضهم وهو تركها على قصد أن لا يعود إليها وعند البعض لا تكون المتاركة إلا بالقول فيهما حتى لو تركها ومضى على عدتها سنون لم يكن لها أن تتزوج بآخر".
(كتاب النكاح، باب المهر، ج:3، ص:185، ط: دار الكتاب الاسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"أن النكاح لا يرتفع بحرمة الرضاع والمصاهرة بل يفسد، حتى لو وطئها قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه الأمر أو لم يشتبه نص عليه في الأصل وفي الفاسد لا بد من تفريق القاضي أو المتاركة بالقول في المدخول بها، وفي غيرها يكتفى بالمفارقة بالأبدان."
(كتاب النكاح،باب الرضاع،ج:3،ص:225،ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101068
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن