میرا نکاح 30 ستمبر 2023ء کو رشتہ والی کے واسطے سے ہوا تھا، وہ لوگ جان پہچان والے نکلے، اچھا گھرانہ تھا، تعریفیں بھی اس کی سنی تھیں، لڑکا دبئی میں ہوتا ہے، فیملی پاکستان میں، ہم نے معلومات لیں اور بار بار پوچھا کہ دبئی میں فیملی رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اس نے کہا کہ اللہ کرے گا ہو جائے گا، مسئلہ نہیں، پھر لڑکا پاکستان آیا پندرہ دن میں دھوم دھام سے نکاح ہوگیا، لڑکے اور اس کے والد دونوں نے کہا کہ دو تین مہینے میں رخصتی کرلیں گے، اس کے بعد وہ دبئی چلا گیا، اور ہمیں بتایا گیا تھا کہ دبئی میں اس کی نوکری ہے، اور آن لائن ویزا کا کاروبار ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سب جھوٹ تھا، اور لڑکے کی پڑھائی بھی کوئی خاص نہیں، میں ایم ایس سی فزکس (MSC PHYSICS) ہوں، جبکہ اس نے بی ٹیک (B-TECH) کیا ہوا ہے، دبئی میں اس کی کوئی نوکری نہیں تھی، مشکل سے گزارا ہوتا تھا، میں نے یہ بات اپنی والدہ کو بتائی، انہوں نے بھی اس کے بارےمیں اور رخصتی کے بارے میں پوچھا تو وہ مکر گیا کہ اتنی جلدی کیسے ہوسکتا ہے، دبئی سے آنا جانا آسان نہیں ہے، بہت پیسہ لگتا ہے، اور مجھے کہنے لگا کہ ابھی تو میں خالی ہاتھ ہوں، نکاح پر خرچہ ہوگیا، حالانکہ نکاح پر اس کا کوئی خرچہ نہیں ہوا، سارا خرچہ ہم نے کیا تھا، اور نوکری کے بارے میں اس نے کہا کہ ہوجائے گی، نکاح سے پہلے کی جو نوکری تھی وہ لیبر کی تھی، پھر چھوڑ دی، ایسا ہی چلتا رہتا ہے، والدہ کو میں نے جب بتایا تو وہ مجھ پر غصہ ہوا، اور اپنی استطاعت ثابت کرنے کےلیے وہ جنوری سے مارچ تک ماہانہ بیس ہزار روپے بھیجتا رہا ، میں نے بہت منع کیا لیکن اس نے زبردستی میرے اکاؤنٹ میں بھیج دیے، پھر اپریل میں کہہ دیا کہ ابھی کچھ مسائل چل رہے ہیں، تنخواہ رکی ہوئی ہے تو رقم نہیں بھیج سکتا، اور پھر مجھے وقت دینا بالکل بند کر دیا، کبھی دو دن میں مشکل سے دو منٹ میسج پر بات ہوتی، ایک دن بعد میرے میسج کا جواب آتا، اس دوران اس کی سالگرہ آئی تو فیس بک پر پتا چلا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے اور ایک فلپائنی عورت سے اس کی شادی مارچ 2022ء میں ہوگئی تھی، تعلقات شادی سے پہلے کے تھے، اور معلومات سے پتا چلا کہ کووِڈ (کرونا) کے دوران اس کے پاس پیسہ نہیں تھا، فاقے ہوتے تھے، نوکری بھی نہیں تھی، یہ عورت اس کی مدد کرتی تھی، پھر اس سے شادی کرلی، اس کا کردار بھی اچھا نہیں ہے، محفوظ سرمایہ بھی کچھ نہیں ہے، اور میں ایسی حالت میں اس کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتی، کہتا ہے کہ دوسری بیوی سے اللہ کی رضا کےلیے شادی کی ہے، تم بھی راضی ہو جاؤ، کہتا ہے کہ نہ تمھیں طلاق دوں گا نہ اسے، جو کرنا ہے کرلو، میرے نکاح نامہ پر کنوارا لکھا ہے، میں نے عدالت سے خلع لیا ہے لیکن وہ شرعی نہیں مانا جاتا اب بتائیں کہ میں کس طرح خلع لوں؛ کیونکہ وہ کسی طور پر بھی نہیں مان رہا، اور نہ اپنی غلطی مانتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کو اگر واقعی مذکورہ مسائل در پیش ہیں تو اس کا شرعی حل یہ ہے کہ خاندان کے بڑے بیٹھ کر مسئلہ کا حل سوچیں، لڑکے کو رخصتی کرنے اور نان نفقہ دینے پر آمادہ کریں، اور شوہر کو یہ بات سمجھائی جائے کہ ایک سے زائد نکاح کرنے والے شخص پر دونوں بیویوں کے درمیان برابری کرنا شرعا ضروری ہے، برابری نہ کرنے کی صورت میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعیدیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔
پس اگر شوہر سائلہ کے حقوق ادا کرنے اور رخصتی پر آمادہ ہوجاتا ہے تو سائلہ آئندہ کے امکانی خدشات کو سوچنے کی بجائے اللہ پر توکل کرکے اسی شوہر کے ساتھ رہائش اختیار کرکے اپنا گھر بسائے، بلا وجہ طلاق کا مطالبہ نہ کرے؛ کیونکہ بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کے بارے میں احادیث میں مذکور ہے کہ وہ جنت کی خوشبو تک سے محروم ر ہے گی۔
البتہ اگر کسی صورت شوہر نہ رخصتی پر آمادہ ہو، نہ بیوی کے نفقہ دینے پر راضی ہو، نہ طلاق دینے تیار ہو، تو پھر سائلہ کچھ مال دے کر یا اپنا مہر معاف کرکے خلع لینے کی کوشش کرے۔بصورت دیگر کوشش کے باوجود شوہر خلع بھی نہیں دے، اور رخصتی بھی نہیں کرے، اور نہ ہی نان نفقہ دے، تو پھر سائلہ عدالت میں تنسیخ نکاح کی درخواست دائر کرکے شوہر سے خلاصی لے لے، جس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ سائلہ مسلمان قاضی/ جج کی عدالت میں حاضر ہوکر اس کے سامنے اپنے نکاح اور اس کے بعد شوہر کے اس تعنت (رخصتی پر آمادہ نہ ہونے اور خرچہ نہ دینے) کے دعویٰ کو دو شرعی گواہوں کی گواہی سے ثابت کرے، اور تنسیخِ نکاح کا مطالبہ کرے(خلع کا نہیں بلکہ نکاح توڑنے کا )اس کے بعد قاضی/ جج شوہر کو بلا کر اسے حکم دے کہ اپنی بیوی کے حقوق نان نفقہ ادا کرو، یا طلا ق دے دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ انکار کرے، یا عدالت میں حاضر ہی نہ ہو تو جج/ قاضی کو اختیار حاصل ہوگا کہ نکاح کو فسخ کردے، فسخِ نکاح کے بعد عدت گزار کر سائلہ کسی اور شخص سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَماً مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاحاً يُوَفِّقْ اللَّهُ بَيْنَهُمَا." (النساء:35)
ترجمہ: ”اور اگر تم اوپر والوں کو اُن دونوں میاں بی بی میں کشاکش کا اندیشہ ہو تو تم لوگ ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو مرد کے خاندان سے اور ایک آدمی جو تصفیہ کرنے کی لیاقت رکھتا ہو عورت کے خاندان سے بھیجو اگر اُن دونوں آدمیوں کو اصلاح منظور ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان میاں بی بی میں اتفاق فرمادیں گے۔“(بیان القرآن)
"فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ." (البقرۃ:229)
ترجمہ: ”سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ کر سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اُس میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑا لے۔“(بیان القرآن)
مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة. رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي."
”(ترجمہ)حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی الللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند سے بلا عذر طلاق مانگے اس پر جنت حرام ہے۔(جب کہ مقربین وابرار کو جنت کی ہوا موقف میں بھی پہنچے کی تو یہ لوگ محروم ہوں گے)۔ (مظاہرِ حق جدید)
"وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أبغض الحلال إلى الله الطلاق . رواه أبو داود."
”(ترجمہ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کےہاں حلال چیزوں میں سے مبغوض ترین چیز طلاق ہے۔“ (مظاہرِ حق جدید)
(كتاب النكاح، باب الخلع والطلاق، ج:2، ص292، ط:رحمانية)
حیلۂ ناجزہ میں ہے:
”اور صورت تفریق کہ یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ قاضی اسلام یا مسلمان حاکم اور ان کے نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین کے سامنے پیش کرے اور جس کے پاس پیش ہو وہ معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ سے پوری تحقیق کرے اور اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہو کہ باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا تو اس کے خاوند سے کہا جائے کہ اپنی عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو طلا ق واقع کردے۔“
(حکم زوجہ متعنت، تفریق کی صورت اور اس کی شرائط، ص:72، ط:دار الاشاعت کراچی)
وفیه أیضا:
"والمتعنتالممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام فإن لم یثبت عسرہ أنفق أو طلق و إلا طلق علیه، قال محشیه: قوله: وإلا طلق علیه أي طلق علیه الحاکم من غیر تلوم إلی أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها، وقال ابن عبد الرحمن: لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهی وهو الذی تقضیه المدونة کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهی."
(الرواية الثالثة والعشرون، ص: 150، ط: دار الإشاعت كراچي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق (بما يصلح للمهر).
(قوله: ولا بأس به) أي ولو في حالة الحيض، فلا يكره بالإجماع لأنه لا يمكن تحصيل العوض إلا به بحر أول كتاب الطلاق، وقدمه الشارح هناك (قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:441، ط: سعید)
وفيه أيضا:
"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب. ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا ولا يبلغ الإيلاء إلا برضاها."
(کتاب النكاح، باب القسم، ج: 3، ص: 201، ط: سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608100196
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن