میری بیٹی کو طلاق ہوئی ہے، اس کو مہر میں کچھ سونا ملا تھا اور اس کے سسرال والوں میں سے اس کی نند نے کچھ سونا بطور تحفہ بیٹی کو دیا تھا، اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ سونا میری بیٹی کی ہی ملکیت رہے گا یعنی اگر اس کے سسرال والے واپسی کا مطالبہ کریں تو ان کو ہم نہ دیں یا یہ سونا ان کو واپس دیا جائے گا؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیٹی کو جو سونا مہر کے طور پر شوہر نے دیا تھا، اور اسی طرح جو سونا اس کی نند(دلہے کی بہن) نے شادی کے موقع پر گفٹ کی صراحت کے ساتھ پر دیا تھا وہ سائل کی بیٹی کی ملکیت شمار ہوگا، طلاق کی صورت میں سسرال والے اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتے، مطالبہ کرنے کے باوجود مذکورہ سونا واپس کرنا لازم نہیں ہوگا ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة:الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين".
(كتاب النكاح، فصل :وأما بيان ما يتأكد به المهر، 2/ 291، ط:سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"و إذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."
(كتاب النكاح، الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، 1 / 327، ط: رشیدیة)
دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها.
(الخاتمة) إن الأشياء التي ترسل في حفلات كهذه إذا كانت تدفع عرفا وعادة على وجه البدل فيلزم القابض مثلها إذا كانت من المثليات وقيمتها إذا كانت من القيميات وإذا كان لا يرسل بمقتضى العرف والعادة على وجه البدل بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."
(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، 2/ 482، ط: دار الجيل)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144610100708
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن