میری بیٹی کے نکاح کے موقع پر گواہان میں بیٹی کے پھوپھا کا نام لکھا تھا، جو کہ نامحرم ہیں، جن کی عمر تقریبا 72 سال کی ہے ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نہ محرم بہر صورت نامحرم ہے عمر سے اس کا کوئی تعلق نہیں، جبکہ مولانا صاحب جو کہ نکاح خواں ہیں ان کا خیال ہے کہ نامحرم کی عمر اگر زیادہ ہےتو یہ گواہ ہوسکتے ہیں، اس صورت میں اگر نکاح کے وقت دلہن کی طرف سے گواہ پھوپھا کو مقرر کیا جائے تو ان کی گواہی معتبر ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا اس صورت میں نکاح ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا دوبارہ محرم گواہ مقرر کا نکاح کیا جائے گا ؟
قاضی کے علاوہ اگر دو مسلمان مردیا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتیں گواہ ہوں تو نکاح منعقد ہوجاتاہے، اور اگر مسلمانوں کے مجمع میں نکاح ہوجائے اورباقاعدہ کسی کا نام گواہ کے طور پر نہ لکھا جائے تو بھی شرعاً نکاح منعقد ہوجاتاہے، لہذا صورت مسئولہ میں بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ پھوپھا نا محرم ہیں اس وجہ سے ان کی گواہی سے نکاح نہیں ہوگا، درست نہیں ، پھوپھا کی گواہی سے ہونے والا نکاح منعقد ہوگیا ہے، دولہن کے محارم میں سے کسی محرم کو گواہ مقرر کرکےدوبارہ نکاح کرانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
"(و) شرط (حضور) شاهدين(حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف أو أعميين أو ابني الزوجين أو ابني أحدهما، وإن لم يثبت النكاح بهما) بالابنين".
(کتاب النکاح، ج:3، ص:21، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610101089
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن