بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سے زائد مساجد میں جمعہ قائم کرنے کا حکم


سوال

ہماے گاؤں ’’اپر بنولہ‘‘ میں ایک قدیمی مسجد ’’بلال‘‘ ہے، جو کہ گاؤں کے درمیان میں واقع ہے،  2018ء سے ہمارا مطالبہ تھا کہ کہ جمعہ قائم کرنے کی اجازت دی جائے، مگر علماء نے مسئلہ کو التوا میں رکھا، بعد ازاں کرونا وبا کے مشکل حالات کو مدِ نظر رکھ کر جمعہ قائم کرنے کی اجازت دی گئی، اور گاؤں کی آبادی کو بھی مدِ نظر رکھ کر فیصلہ کیا گیا، اسی دوران گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کی گئی، جو کہ ابھی تک مکمل نہ ہو سکی، جہاں طہارت خانہ تک نہیں ہے، اور وہ مسجد جامعہ مسجد بلال بنولہ سے 250 میٹر دور ہے، کچھ عناصر کی ایما پر جمعہ قائم کیا گیا ہے، اور یہ اسی سال شوال کے مہینے میں قائم ہوا، دریافت طلب امر یہ ہے کہ بلا عذرِ شرعی اتنے قریب میں جمعہ قائم کرنا کیسا ہے؟ واضح رہے کہ دونوں مساجد ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ بستی اتنی بڑی ہو کہ اس کی آبادی دو، ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اور اس میں ضروریاتِ زندگی یعنی حفاظت کے لیے تھانہ، عدالت کے لیے کورٹ یا پنچائیت، علاج کے لیے ہسپتال، تعلیم کے لیے اسکول / مدرسہ، مواصلات کے لیے ڈاکخانہ وغیرہ، روز مرہ کی ضروریات کے لیے بازار میسر ہوں تو  مذکورہ دونوں مساجد میں جمعہ قائم کرنے سے نماز درست ہوجائے گی، البتہ بلا ضرورت کئی جگہ جمعہ قائم کرنا   جماعت کی کمی کا باعث بننے کی بنا پر خلافِ اولیٰ ہے؛   کیوں کہ جمعہ میں کثرتِ جماعت  شرعاً مطلوب ہے، تاہم اگر محلہ کی قدیم مرکزی مسجد میں تنگی کے باعث جگہ کم پڑتی ہو یا دوری کی بنا پر  لوگوں کے لیے آنے میں مشقت ہو تو دونوں جگہ جمعہ قائم کرنا درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:137، ط:سعيد)

فیہ ایضاً:

"(وتؤدى في مصر واحد بمواضع كثيرة) مطلقا على المذهب وعليه الفتوى شرح المجمع للعيني وإمامة فتح القدير دفعا للحرج.

(قوله مطلقا) أي سواء كان المصر كبيرا أو لا وسواء فصل بين جانبيه نهر كبير  كبغداد أو لا وسواء قطع الجسر أو بقي متصلا وسواء كان التعدد في مسجدين أو أكثر هكذا يفاد من الفتح، ومقتضاه أنه لا يلزم أن يكون التعدد بقدر الحاجة كما يدل عليه كلام السرخسي الآتي.

(قوله على المذهب) فقد ذكر الإمام السرخسي أن الصحيح من مذهب أبي حنيفة جواز إقامتها في مصر واحد في مسجدين وأكثر به نأخذ لإطلاق «لا جمعة إلا في مصر» شرط المصر فقط، وبما ذكرنا اندفع ما في البدائع من أن ظاهر الرواية جوازها في موضعين لا في أكثر وعليه الاعتماد اهـ فإن المذهب الجواز مطلقا بحر.

(قوله دفعا للحرج) لأن في إلزام اتحاد الموضع حرجا بينا لاستدعائه تطويل المسافة على أكثر الحاضرين ولم يوجد دليل عدم جواز التعدد بل قضية الضرورة عدم اشتراطه لا سيما إذا كان مصرا كبيرا كمصرنا كما قاله الكمال ط."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:145، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

"ایک بستی میں ایک جگہ جمعہ پڑھنا افضل ہے، لیکن اگر بستی بڑی ہو اور ایک جگہ لوگوں کا جمعہ ہونا دشوار ہو تو دو جگہ حسبِ ضرورت جمعہ پڑھنا جائز ہے، اور بلا ضرورت بھی کئی جگہ جمعہ پڑھا جائے تو نماز ہوجاتی ہے، البتہ خلافِ افضل اور خلافِ اولیٰ ہوتی ہے۔"

(کتاب الصلاہ، باب الجمعہ، متعدد جگہ جمعہ، ج:3، ص:288، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں