بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نصاب سے کم سونا چند سالوں بعد نصاب کے بقدر ہوجائے تو زکوٰۃ کس قیمت کے حساب سے ہوگی؟


سوال

ایک آدمی کے پاس 2015 میں ساڑھے پانچ تولہ سونا تھا اور اس کے علاوہ نقدی ، مال وغیرہ بالکل  نہیں تھا،  اب اس کے پاس  مزید اضافی سونا اور کچھ رقم آچکی ہے، اگر وہ زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہے تو کیا موجودہ قیمت کے  اعتبار سے زکوٰۃ ادا کرے گا یا سابقہ قیمت کے اعتبار سے، نیز اگر وہ زکوٰۃ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ادا کرنا چاہے تو بعد میں ادا کرتے وقت اس وقت کی قیمت کا حساب ہوگا یا قدیم  قیمت کا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو  سونے کے اعتبار سے  نصاب کی  مقدار  ساڑھے سات تولہ سونا ہے اور اگر چاندی ہے تو  نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے، اگر سونا اور چاندی دونوں کچھ  کچھ ہوں، یا ان کے ساتھ مالِ تجارت یا نقدی ہو، یا صرف نقدی یا مال تجارت ہو تو ان سب صورتوں  میں چاندی کے نصاب  کو معیار بنایا جائے گا، یعنی ان کی  مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت  تک پہنچ جائے  تو   ایسا شخص نصاب کا مالک شمار ہو گا۔

صورت  مسئولہ میں  مذکورہ شخص کے پاس   جب تک صرف ساڑھے پانچ تولہ سونا تھا اور اس کے علاوہ چاندی،  نقدی اور مال تجارت  کچھ بھی نہیں تھا تو ایسے شخص پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم نہیں تھا، تاہم جب سے  اس کے پاس  اس سونے کے علاوہ  مزید سونا اور کچھ رقم بھی آگئی  یہ صاحبِ نصاب بن گیا، لہذااس کے  بعد ایک  سال  مکمل ہونے پر  اس سونے اور نقدی  کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا، اور  سونے کی زکوٰۃ اگر  اس کی قیمت کا حساب کرکے نقد کی شکل میں دے رہا ہو تو سونے کی موجودہ مارکیٹ ویلیو  کے اعتبار سے زکوٰۃ   ادا کرنا لازم ہوگا، سابقہ قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا۔ 

باقی اگر  مذکورہ شخص   سال مکمل ہونے کے بعد زکوٰۃ کا حساب کرکے   رقم طے کرلیتا ہے اور پھر اس رقم کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ادا کرنا چاہتا ہے تو جو رقم زکوٰۃ کی متعین کی تھی وہی ادا کرنا لازم ہوگا، اور اگر  زکوٰۃ کا حساب کرکے رقم متعین نہیں کرتا تو جس وقت ادا کرے گا ، اسی وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔  

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة. ويعتبر فيهما أن يكون المؤدى قدر الواجب وزنا، ولا يعتبر فيه القيمة عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى ."

(کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، الفصل الأول، 1/ 178، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين، وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء؛ فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا."

(كتاب الزكاة، فصل صفة الواجب في أموال التجارة، 2/ 22، ط: سعید)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله -: (وشرط أدائها نية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب أو تصدق بكله) أي‌‌ شرط صحة أداء الزكاة نية مقارنة للأداء أو لعزل مقدار الواجب أو تصدق بجميع النصاب؛ لأنها عبادة فلا تصح بدون النية، والأصل فيه الإقتران بالأداء كسائر العبادات إلا أن الدفع يتفرق فيحرج باستحضار النية عند كل دفع فاكتفي بوجودها حالة العزل دفعا للحرج."

(کتاب الزکاۃ، شرط صحة أداء الزکوۃ، 1/ 257، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144601100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں