بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نسیان کی بیماری میں مبتلا شخص کے مال کا حکم


سوال

ہمارے والد صاحب اسسٹنٹ منیجر کی پوسٹ سے ریٹائڑ ہوچکے ہیں،ان کی پینشن آتی ہے،اس کے  علاوہ ان کے دو فلیٹ اور ایک دکان ہےاور ان کی ایک بیوی ،دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہے،بیٹیاں شادی شدہ ہیں ،ایک بیٹے کی بھی شادی ہوچکی ہے،ایک کنوارا ہے،والدصاحب اپنے اہلیہ اور دو بیٹوں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتے ہیں،ایک فلیٹ اور دکان کرایہ پر ہے،دونوں  بیٹے اپنا خود بھی کماتے ہیں، مسئلہ یہ ہے،کہ والد صاحب نسیان کی بیماری میں مبتلا ہیں،وہ اپنے مال کی حفاظت اور اس کو ترقی دینے سے عاجز ہیں،کیا سب بچے اور بیوی اس مال سے برابر فائدہ اٹھائیں؟والد صاحب کی آمدنی  بیٹے  گھر کے اخراجات میں خرچ کررہے ہیں،لیکن بیٹے خود بھی کماتے ہیں،تو کیا انہیں اپنی کمائی میں سے بھی کچھ گھر کے اخراجات میں ملانا چاہے یا نہیں اور کیا والد صاحب کی آمدنی میں بیٹیوں  کو کچھ لینے کا حق ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے والد صاحب جب تک حیات ہیں،وہ اپنی جائیداد کے  خود مالک ہیں،بیٹوں یا بیٹیوں کا ان کے مال  ان کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا جائز نہیں۔دونوں بیٹوں پر لازم ہے کہ جب وہ خود کما رہے ہیں تو اپنے اوپر اور اپنے اہل وعیال پر اپنی آمدنی سے خرچ کریں ،  البتہ والد  اور  والدہ کی ضروریات والد کے مال میں سے پوری کی جاسکتی ہیں۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة."

(كتاب الطلاق، الفصل الأول في نفقة الزوجة، 544/1، ط: دارالفکر)

وفیه ایضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة......ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان."

(الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد،562/1۔563، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب النفقة، مطلب الصغير والمكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه، ط: دار الفكر - بيروت)

وفيه ايضاّ:

"لأن الورثة والعقب إنما يكون بعد الموت.

(قوله إنما يكون بعد الموت) لأن كونهم ورثة لا يتحقق إلا بعد موت المورث.

(كتاب الوصايا، باب الوصية للأقارب وغيرهم، 687/6، ط: سعید)

مجلہ الأحکام میں ہے:

"(المادة 96) : ‌لا يجوز لأحد أن ‌يتصرف في ملك الغير بلا إذنه(المادة 97) : ‌لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص: 27، ط: تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار. فعليه إذا أراد شخص أن يبني بناء محاذيا لحائط بناء إنسان فليس له أن يستعمل حائط ذلك الشخص بدون إذنه حتى ولو أذنه صاحب الحائط فله بعدئذ حق الرجوع عن إذنه.

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ‌‌(المادة 96) لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه، 96/1، ط: دار الجیل)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصد السرقة هازلا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قد ارتكب الفعل المحرم شرعا؛ لأن اللعب في السرقة جد فعلى ذلك يجب أن ترد اللقطة التي تؤخذ بقصد امتلاكها أو المال الذي يؤخذ رشوة أو سرقة أو غصبا لصاحبها عينا إذا كانت موجودة وبدلا فيما إذا استهلكت."

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ‌‌‌‌(المادة 97) لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي، 98/1، ط: دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں