بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نیٹ پر جانداورں کی تصاویر شیر کرنا


سوال

موجودہ دور میں بعض حضرات  آن لائن کاروبارکرتے ہیں ، جس کے لیے وہ واٹس ایپ بزنس ، فیس بک اور دیگر ایپس استعمال کرتے ہیں اور اس میں فروخت کی جانے والی چیزوں کی تصاویر ڈال دیتے ہیں ،  اب ہوتایہ ہے کہ اس میں بعض اشیاء (برانڈڈ کپڑے ،کھلونے ، صابن وغیرہ ) کی تصاویر پر جاندار کی تصاویر لگی ہوتی ہے ، (عورت ، گڑیا ، منے کی تصاویر )  اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ان چیزوں کی تصاویر لگانا ہماری مجبوری ہے تاکہ لوگ دیکھیں اور چیزیں فروخت ہوں ، ان پرجو جاندار کی تصاویر چسپاں ہیں یہ ہم نے تو نہیں لگائیں یہ برانڈسے لگتی ہیں ۔ اس بات کا جواب عنایت فرمائیں کہ کیا کاوربار کے لیے جاندار کی  تصاویر پر مشتمل اشیاء کی تصاویر کی تشہیر  درست ہے ؟ خرید وفروخت کے لیے اس قسم کی بعض فحش تصاویر کو دیکھنا جائز ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ   میں جوچیزیں ایسی ہوں کہ جن سے مقصود ہی تصویر کی خرید وفروخت ہے مثلًاجان دار کی تصویر والے اسٹیکر، کھلاڑیوں وغیرہ کی تصویریں تو ایسی چیزیں فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اور جن چیزوں میں مقصود تصویر نہ ہو بلکہ تصویر اس میں تابع ہو جیسے کپرے، صابن وغیرہ تو ایسی چیزوں کو فروخت کرنا ناجائز نہیں ہے اور اس کی آمدنی بھی حرام نہیں ہے، البتہ احتیاط اس میں بھی یہ ہے کہ تصویر والی چیز بالکل فروخت نہ کی جائے۔

نیزجیسےجاندار کی  تصاویر بنانا ناجائزہے ایسے ہی  جاندار کی  تصاویر دیکھنابھی جائزنہیں،بالخصوص فحش تصاویر کا دیکھنا تو بد نظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے ۔

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

(المادة 2) :الأمور بمقاصدها.

يعني: أن الحكم الذي يترتب على أمر يكون على مقتضى ما هو المقصود من ذلك الأمر.

 

(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية1/16ط:نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

الموسوعۃ الفقہیہ  میں ہے:

الأصل إباحة الجائزة على عمل مشروع سواء أكان دينيا أو دنيويا

(الحكم التكليفي15/77ط: دارالسلاسل)

 عمدالقاری میں ہے:

وفي التوضيح قال أصحابنا وغيرهم تصوير صورة الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فحرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله وسواء كان في ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط وأما ما ليس فيه صورة حيوان كالشجر ونحوه فليس بحرام وسواء كان في هذا كله ما له ظل وما لا ظل له وبمعناه قال جماعة العلماء مالك والثوري وأبو حنيفة وغيرهم

(باب عذاب الصورین22/70ط: دار إحياء التراث العربي)

شرح الکبیر میں ہے:

والحاصل أنه يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء إذا كان يدوم إجماعا وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ ويحرم النظر إليه إذ النظر إلى المحرم حرام

(باب النکاح 2/388ط:دارالفکر)

کفایت المفتی میں ہے :

’’اس میں چوں کہ تصویر کی بیع و شرا مقصود نہیں ہوتی؛ اس لیے ضرورۃً گنجائش ہے‘‘

(۹ / ۲۴۲، دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں