بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نکاح کا مسنون طریقہ


سوال

ایک آدمی جو کہ پہلے سے شادی شدہ اور ایک بیٹی کاباپ ہے، میں بھی طلاق یافتہ ہوں، بقول ان کے  ان کی بیگم اور ان میں کوئی ہم آہنگی نہیں،  بیگم کافی زبان دراز ہے اور ازدواجی تعلق بھی کافی سال سے نہیں ہے،  جب کہ رہتے ساتھ ہیں ، اب وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں ، مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے گھر میں والدین،  بہن بھائی اور بیگم  کسی کوبھی نہیں بتاسکتے، اور مجھےبھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اپنے گھر والوں کو مناؤ،  اور اپنے والدین کے علاوہ خاندان میں کسی کونہ بتاؤ، کہتےہیں کہ گھرالگ لےکردوں گا۔

اب میرا سوال ہےکہ کیا ایسا نکاح کرنا ٹھیک ہوگا؟ جب کہ میرے گھر والوں کی شرط ہے کہ مرد کے گھر سے کوئی موجود ہو،  براہِ کرم مجھے اس کا جواب دیں،  کیوں کہ نہ میں اپنے گھر والوں کو چھوڑنا چاہتی ہوں،  نہ یہ چاہتی ہوں  کہ میرے والدین کو کوئی رسوائی ہو، اور نہ ہی میں اس شخص کے علاوہ کسی اورنکاح سے کرنا چاہتی ہوں،  ایسے میں کیا کروں؟

جواب

اصولاًنکاح مردوعورت یااُن کے وکیلوں کےایجاب قبول سےشرعی گواہوں (دومردیاایک مرداوردوعورتیں)میں نکاح منعقدہوجاتاہے، چاہےیہ گواہ مردکےرشتہ داروں میں سےہوں یاعورت کےرشتہ داروں میں سےہوں یاپرائےہوں، لیکن یہ نکاح کامسنون طریقہ نہیں،  ایسانکاح خلافِ مسنون ہونےکی وجہ سےخیروبرکت سےخالی اور لوگوں میں بد گمانیاں پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے، نکاح کامسنون اوربہترطریقہ  یہ ہےکہ نکاح بڑےمجمع میں مسجد میں کیاجائے، اورنکاح سےپہلےخطبہ بھی پڑھاجائے، آپ ﷺ نےنکاح کےاعلان کرنےکاحکم فرمایاہے، اورنکاح مسجدمیں کرنےکی ترغیب دی ہے، لہذاخفیہ اورپوشیدہ نکاح کرنےسےاحترازکیاجائے، اس سے مستقبل میں مسائل پیدا  ہوسکتے ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعلنوا هذا النكاح واجعلوه في المساجد واضربوا عليه بالدفوف."

(کتاب النکاح، ‌‌باب إعلان النكاح والخطبة والشرط، الفصل الثانی، 943/2، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےروایت ہےکہ اللہ کےرسول ﷺ نےفرمایا:نکاح کااعلان کرو، اوراس کواپنی مساجدمیں کرو، اورنکاح کےوقت دف بجاؤ۔“(مظاہرحق)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول، والاستدانة له والنظر إليها قبله، وكونها دونه سنا وحسبا وعزا، ومالا وفوقه خلقا وأدباوورعا وجمالا.

(قوله: وتقديم خطبة) بضم الخاء ما يذكر قبل إجراء العقد من الحمد والتشهد."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:8، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام ... وينعقد بحضور من لا تقبل شهادته له أصلا كما إذا تزوج امرأة بشهادة ابنيه منها وكذا إذا تزوج بشهادة ابنيه لا منها أو ابنيها لا منه هكذا في البدائع والأصل في هذا الباب أن كل من يصلح أن يكون وليا في النكاح بولاية نفسه صلح أن يكون شاهدا، ومن لا فلا."

(کتاب النکاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، 267/1، ط:دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144604102158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں