بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

یا غوث اعظم کہنے کا حکم


سوال

۱۔۔غوث کا کیا معنی ہوتا ہے؟

۲۔۔  یا غوث المدد کہنا کیسا ہے ؟ اور صرف غوث اعظم کہنا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور سے مدد طلب کرنا اور اس کو ہر چیز میں بااختیار سمجھ کر  یا فلان مدد وغیرہ کلمات سے پکارنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ہر کام کرنے پر قادر ہے اور تصرف کرسکتاہے    ناجائز اور شرک ہے۔

۱۔۔۔غوث  کا لغوی معنی ہے: مدد، امداد اور پکارنا۔(ماخوذ: از القاموس الوحید، ص:۱۱۸۸، ط:ادارۂ اسلامیات) اور صوفیائے کرام کی اصطلاح میں ”غوث“ ولایتِ الٰہی کا ایک درجہ ہے، اس درجے کا حامل شخص پوری دینا میں صرف ایک ہی ہوتا ہے، اس کی اہم خصوصیتوں میں سے یہ ہے کہ وہ ”مستجاب الدعوات“ ہوتا ہے(ماخوذ از امداد السلوک، ص: ۶۰)۔

۲۔۔۔یا "غوث المدد" کہنا جائز نہیں ہے،  اس لیے کہ اگر اس سے مقصود حضرت عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کو پکار کر ان سے استغاثہ ہو  اور یہ اعتقاد ہو کہ ان کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں، جو چاہیں جس کی چاہیں مدد کرسکتے ہیں تو  یہ  کفر ہے اور اس کے ساتھ ایمان باقی نہیں رہتااور اگر یہ اعتقاد نہ  بھی ہو  تب بھی  یہ موہمِ شرک ضرور ہیں، البتہ حضرت عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ  کو  لکھتے وقت  اسی لقب سے لکھنا   یا تذکرہ کرنا  اسلاف اور  اکابر علما  سے منقول ہے اس لیےاگر  باطل عقیدہ نہ ہو  ،تو ان کو اس لقب سے  لکھنا یا تذکرہ کرنا  جائز ہے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"الثاني ‌أن ‌الناس ‌قد ‌أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني، وليس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقد عده أناس من العلماء شركا وأن لا يكنه، فهو قريب منه ولا أرى أحدا ممن يقول ذلك إلا وهو يعتقد أن المدعو الحي الغائب أو الميت المغيب يعلم الغيب أو يسمع النداء ويقدر بالذات أو بالغير على جلب الخير ودفع الأذى وإلا لما دعاه ولا فتح فاه، وفي ذلك بلاء من ربكم عظيم، فالحزم التجنب عن ذلك وعدم الطلب إلا من الله تعالى القوي الغني الفعال لما يريد."

[ج:3، ص:298، ط:دار الكتب العلمية]

تاج العروس میں ہے:

"{غوث الرجل،} واستغاث: صاح: {واغوثاه، وتقول: ضرب فلان} فغوث ( {تغويثا، قال:} واغوثاه) ، قال شيخنا: وقد صرح أئمة النحو بأن هذا هو أصله، ثم إنهم استعملوه بمعنى صاح ونادى طلبا للغوث."

[باب الثاء المثلثة، ج:5، ص:314، ط:دار الهداية]

المقاصد الحسنةمیں ہے:

"وفي تاريخ بغداد للخطيب عن الكتاني قال: النقباء ثلاثمائة، والنجباء سبعون، والبدلاء أربعون، والأخيار سبعة، والعمد أربعة، ‌والغوث ‌واحد... وذكر أثرا إلى غير ذلك من الآثار الموقوفة وغيرها."

[الباب الأول، حرف الهمزة، ص:46، ط:دار الكتاب العربي.]

لمعات التنقيح میں ہے:

"قال سيدنا ومولانا ‌الغوث ‌الأعظم محيي الدين أبو محمد عبد القادر الجيلاني رحمه الله: لا يزال الله يبتلي عبده المؤمن على قدر إيمانه، فمن عظم إيمانه وكثر وتزايد عظم بلاؤه."

[كتاب الجنائز، ج:4، ص:43، ط:دار النوادر]

کفایت المفتی میں ہے:

"یاغوث کہنا: بہر حال ناجائز ہے؛ کیوں کہ غوث نہ خود سن سکتے ہیں اور نہ ان تک ان الفاظ کو پہنچانے کے لیے کسی ذریعہ کا شرعا ثبوت ہے۔ـ"

(کتاب العقائد،ج:۱، ص:۱۶۸، ط:دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: کیا اولیائے کرام کو اٹھتے بیٹھتے پکارنا جیسا کہ:"یا غوث الاعظم المدد"یا بڑا پیر جائز ہے یا کھلا ہوا شرک ہے؟۔ جواب:ان اعتقادات اور اعمال سے ایمان سلامت نہیں رہتا اس عقیدہ کو فقہاء نےکفر لکھا ہے:(ويكفر بقوله: أرواح المشائخ حاضرة تعلم) [مجمع الأنهر]۔"

(کتاب العقائد، باب مایتعلق بالاستمداد بغیر اللہ  ، ج:۱، ص:۳۶۲، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100430

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں