بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازیں تین ہوتیں تو ٹھیک ہوتیں کہنے والے کاحکم


سوال

مجھ سے ایک کفر کی بات نکلی تھی کہ نمازيں  تین ہوتیں تو ٹھیک ہوتیں لوگ پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کےمستحق نہیں ہیں تو ایسا لفظ بولنے سے میں اسلام سے خارج ہو گیا،راہنمائی فرما دیجئے؟

جواب

 سائل کا یہ کہنا کہ  " نمازیں تین ہوتیں تو ٹھیک ہوتیں " گو کہ ان کلمات کی تاویل ہوسکتی ہے جیساکہ سائل کے بعد والے الفاظ"لوگ پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے مستحق نہیں  " سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، اس لیےسائل پر اصولاً کفر کا فتوی تو   نہیں لگتا،تاہم اس قسم کے الفاظ سے اجتناب لازم ہےاور احتیاطاً ایمان ونکاح کی تجدید بھی کی جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال ليت صوم رمضان لم يكن فرضا فقد اختلف المشايخ في كفره، والصواب ما نقل عن الشيخ الإمام أبي بكر محمد بن الفضل - رحمه الله تعالى - إن هذا على نيته إن نوى أنه قال ذلك من أجل أن لا يمكنه أداء حقوقه لا يكفر."

(کتاب السیر،الباب التاسع فی احکام المرتدین،مطلب فی موجبات الکفر،270/2،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

"ولو تمنى أن الله لو لم يفرض صوم رمضان لما شق عليه، لا يكون كافراً، كذا قال الشيخ الإمام أبو بكر البلخي والشيخ أبو بكر محمد بن الفضل رحمهما الله تعالى :أنه لا يكون كفراً إذا نوى أنه لا يمكنه أداء حقوقه . ولو تمنى أن الأكل فوق الشبع لا يكون حراماً كان كفراً إلا أن إباحته لا تليق بالحكمة. ولو قال : إن هذه الطاعات جعلها الله عذاباً علينا إن نوى أن طاعتها مشقة علينا لا يكون كفراً. ولو قال : لو لم يفرض الله تعالى علينا هذه الطاعة، كان خيراً لا يكون كفراً إن تأوّل ذلك وتأويله ما قلنا ."

(کتاب السیر،باب مایکون کفرا من المسلم ومالایکون،515/3،ط:دار الکتب العلمیة،بیروت ،لبنان)

شرح ملا علی قاری علی کتاب ألفاظ الکفر میں ہے:

"وفي الظهيرية أو قال كم من هذه الصلوات فإنه ضاق صدري منها أو مل أي حصل الملالة عنها فإنه كفر للاعتراض على فرضية هذه الصلوات في كثرة الأوقات. وفي الجواهر أو قال : شبعت منها أو كرهتها، أو قال من يقدر على تمشية الأمر أو على إخراجه يعني كفر فإنه يدل على أنه يعتقد أن الله تعالى كلفه فوق طاقتہ وقد قال الله تعالى لايُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ."

(فصل فی القران والصلوۃ،291،ط:وزارۃ التعلیم العالی جامعہ ام القری-سعوديہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں