العیاذباللہ ایک آدمی نے اپنی نو سال کی بیٹی کے ساتھ لواطت کی، اب اس کی بیوی کا کیا حکم ہے؟
اگر انسان اپنی شہوت سے مغلوب ہوکر محارم وغیرمحارم کی تمیز ہی بھول جائے تو اس میں اور حیوانات میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، اور لواطت تو ایسا قبیح اور برا فعل ہے جسے بیوی کے ساتھ بھی حلال قرار نہیں دیا گیا، چہ جائیکہ حیوان بن کر اپنی ہی معصوم بیٹی کی عزت پامال کی جائے، لہذا ایسا شخص دنیا و آخرت میں سخت سزا کا مستحق ہے، اُسے صدقِ دل سے توبہ کرنا چاہیے، اور آئندہ ایسے فعل یا اس کے اَسباب کے قریب بھی نہ جائے۔
نو سال کی بیٹی سے لواطت کرنا اگرچہ شدید ترین جرم اور گناہ کبیرہ ہے، لیکن اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی یعنی بیوی حرام نہیں ہوئی۔
الفتاوى الهندية (1/ 275):
" و كذا لو وطئ في دبرها لاتثبت الحرمة، كذا في التبيين. و هو الأصح، هكذا في المحيط. و عليه الفتوى، هكذا في جواهر الأخلاطي."
(کتاب النکاح، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم الثالث فی المحرمات بالصہریۃ،ط: دارالفکربیروت)
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (13 / 216):
"(عقوق الوالدين المسلمين، و استحلال الحرام) . و ذكر شيخنا عن أبي طالب المكي أنه قال: الكبائر سبع عشرة، قال: جمعتها من جملة الأخبار وجملة ما اجتمع من قول ابن مسعود وابن عباس وابن عمر، رضي الله تعالى عنهم، وغيرهم: الشرك بالله، والإصرار على معصيته، والقنوط من رحمته، والأمن من مكره، وشهادة الزور، وقذف المحصن، واليمين الغموس، والسحر، وشرب الخمر، والمسكر، وأكل مال اليتيم ظلمًا وأكل الربا، والزنا، واللواطة، والقتل، والسرقة، والفرار من الزحف، وعقوق الوالدين. انتهى. "
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200787
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن