بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نوجوان پروگرام کے تحت بینک سے لون لے کر کاروبار کرنے کا حکم


سوال

  ہم نے کامیاب نوجوان پروگرام کے تحت بینک سے لون (قرضہ) لیا ،اس میں سے کچھ رقم ذاتی اخراجات میں خرچ کردی۔ اس کے بعد باقی رقم سے ایک دوکان کرائے (رینٹ) پر لی ،اور ایک سیل مین کو بطور مضارب کے رکھا، کاروبار شروع کیا ،مکمل سرمایہ ہمارا تھا اوردوکان  کے اخراجات نکال کر 50 فیصد پروفٹ (منافع) پر سیل مین کو رکھا ،اور سارا کام سیل مین دیکھتا ہے۔ایک ماہ  کے پروفٹ کے بعد سیل مین نے کہا  کہ یہ سود کا پیسہ ہے۔اس لیے آپ مجھے یہ دوکان دے دیں ،اور اس میں موجود سامان کی قیمت لےلیں ،تاکہ میں پاک ہوجاؤں۔

(1) اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر ہم ایسا کریں تو اس سیل مین کے لیے وہ سرمایہ پاک ہوجائے  گا جو کاروبار بینک سے لون لے کر   شروع کیاگیاتھا۔

(2) اور ہم نے جو لون لیا تھا وہ آٹھ سال کی قسطوں میں ادا کرنا تھا، جب کہ ہم اب نادم ہیں  اس گناہ پر ،اور ایک سال میں محنت کرکے بغیر اجرت اور منافع لیے اس قرض کو ایک سال میں اتارنا چاہتے ہیں۔جب کہ بینک سے معلومات لینے پر یہ معلوم ہوا  کہ  یہ  لون آٹھ سال کی قسطوں میں ہی ادا ہوگا، ایک سال میں ادا نہیں ہوسکتا ۔ اس صورت ِحال میں شریعت کی رو سے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔

جواب

واضح رہے کہ نوجوان پروگرام کے تحت بینک سے لون  لینا سود ہےاور سود لینا اور دینا حرام ہے ۔سود کے معاملات سے نہ بچنے والے کے متعلق قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ   کا حکم ہوا ہے۔

" فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ."

(سورة البقرۃ ،آیت نمبر:279)

ترجمہ:"پھر اگر تم نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ  کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے (تم پر جہاد ہوگا)،اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے   اصل اموال ملجاویں گے ۔نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤگے اور نہ تم پر کوئی ظلم کرنے پائے گا۔"

بیان القرآن ،ج:1،ص167)

لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل  جتنا جلدی ہوسکے اس  سودی قرضہ کو ختم کرلے ۔ اور  توبہ و استغفار بھی کرے۔

  1. جب مضارب نے ایک ماہ کام کرنے کے بعد مزید کام کرنے سے معذرت کرلی تو یہ عقد مضاربت ختم ہوگیا۔ اب اگر مضارب اس مال کو( جو بینک   کے قرضے سے  خریدا گیا ہے )سائل سے خرید کر خود کاروبار کرنا چاہتا ہے تو باہمی رضامندی سے ایسا کیا جاسکتا ہے۔اگر مضارب اس مال کو خرید ے گا ،تو اس کےلیے اس مال سے آگےتجارت کرنا جائز ہے ۔
  2.  بینک کی پالیسی کے تحت اگر واقعی  آٹھ سال سے پہلے قرضہ کی ادائیگی ممکن نہیں، تو مقروض جس قدر جلد ممکن ہو قرض کے بقدر رقم اپنے مال سے الگ کر کے رکھ لے اور اس کے مقررہ وقت پر ادائیگی کرتا رہے۔ ساتھ  ساتھ  توبہ واستغفار کا بھی اہتمام کرے۔ بینک سے  قرض لی گئی رقم سے سائل اگر حلال کام جائز طریقے سے کرتا ہے تو اس سے حاصل ہونے والے منافع اس کےلیے حلال ہوں گے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:۔

"مطلب إذا اکتسب حراما ثم اشتری فھو علی خمسة أوجه ۔۔۔۔رجل إکتسب مالا من حرام ثم اشتری فھذا علی خمسة أوجه :أما إن دفع تلك الدراھم إلی البائع أولا ثم اشتری منه بها ،أواشتری قبل الدفع بها ودفعھا،أو اشتری قبل الدفع بها ودفع غیرھا،أو اشتری مطلقا ودفع تلك الدراھم،أو اشتری بدراھم أخر ودفع تلك الدراھم۔   بالربح۔  وقال الکرخی:فی الوجه الأول والثانی لا یطیب ،وفی الثلاث الأخیرۃ یطیب  لکن الفتویٰ الآن علی قول الکرخی دفعا للحرج عن الناس."

(فتاویٰ شامی،کتاب البیوع،باب المتفرقات، مطلب إذا اکتسب حراما ثم اشتری قھو علی خمسة أوجه، ج:5،ص:235،ط:ایچ ایم سعید)

"الضرورات تُبیح المحظورات ۔۔۔۔۔ما اُبیح للضرورۃ  یقدر بقدرھا۔۔"

(الأشباہ والنظائر، القاعدۃ الخامسة :الضرر یزال،ص:73،ط:المکتبة الوحیدیة پشاور-پاکستان)

 "فصل: وأما صفة ھذا العقد فھو أنه عقد غیر لازم ، ولکل منھما أعني رب المال والمضارب الفسخ."

(بدائع الصنائع ،کتاب المضاربة ،ج:6،ص:109،ط :دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں