میرا بھائی میرے بیٹوں کو کاغذات میں اپنے بیٹے ظاہر کر کے روزگار کے لیے ہانگ کانگ لے جانا چاہتا ہے، کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کے بھائی کا روزگار کے حصول کے لیے جعلی کاغذات بنوانا جھوٹ اور دھوکا ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے،نیز اصل والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنے کی شریعت میں خصوصی طور پرممانعت فرمائی گئی ہے۔
سورۂ احزاب میں ہے:
"﴿ اُدْعُوهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوْا اٰبَآءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾."(الأحزاب: ٥)
ترجمہ:’’تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔‘‘
(بیان القرآن)
سنن ابن ماجہ میں ہے :
"حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون المدني أبو عبيد قال: حدثنا أبي، عن محمد بن جعفر بن أبي كثير، عن موسى بن عقبة، عن أبي إسحاق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ......... ألا و إياكم و الكذب، فإن الكذب لايصلح بالجد ولا بالهزل."
ترجمہ :’’خبردار جھوٹ سے بچو،اس لیے کہ جھوٹ نہ سنجیدگی میں جائز ہے نہ مذاق میں۔‘‘
(افتتاح الكتاب في الإيمان وفضائل الصحابة والعلم،باب اجتناب البدع والجدل،ج1،ص18،رقم:46،ط:دار إحياء الكتب العربية)
مسند امام احمد میں ہے :
"وعن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."
ترجمہ:’’ مومن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔‘‘
(تتمة مسند الأنصار،حديث أبي أمامة الباهلي الصدي بن عجلان بن عمرو،ج36،ص504،رقم:22170،ط:مؤسسة الرسالة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101562
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن