بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

نومولود بچے کی تعزیت کا حکم


سوال

پیدائش کے بعد بچہ ایک یا دو دن تک زندہ رہا، اس کے بعد اس کا انتقال ہو گیا، اب کیا اس کی تعزیت ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ تعزیت کا مقصد کسی مسلمان کے انتقال پر اس کے اہلِ خانہ، متعلقین اور عزیز و قارب کے ساتھ اظہارِ ہمدردی، غم خواری، ان کی دلجوئی، انہیں صبر کی تلقین اور تسلی دینا،  ہوتا ہے، جس طرح ہمدردی، غم خواری و تسلی کی ضرورت کسی بڑے کی وفات پر اس کے اہلِ خانہ کو ہوتی ہے،  اسی طرح ان چیزوں کی ضرورت نومولود کی وفات پر اس کے گھر والوں کو بھی ہوتی ہے، خاص کر اس کے والدین کو، نیز شرعًا تعزیت میں بچے اور بڑے کی کوئی قید بھی نہیں ہے، لہٰذا نومولود کی بھی تعزیت کرنی چاہیے، بلکہ احادیث میں بچے کی فوتگی اور گمشدگی کی صورت میں بچے کی ماں سے اس کی تعزیت کرنے پربڑی فضیلت آئی ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله ؛ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من عزى مصابا فله مثل أجره."

(سنن الترمذي، أبواب الجنائز، باب ما جاء في أجر من عزى مصابا،2،/ 371، رقم الحديث:1073، ط:دار الغرب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:’’ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے تو اسے بھی  اس مصیبت زدہ  شخص جتنا اجر ملے گا۔‘‘

"وعن أبي برزة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من عزى ثكلى كسي بردا في الجنة» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب."

(مشكاة المصابيح، كتاب الجنائز، باب البكاء على الميت، الفصل الثاني،1/ 544 ،رقم الحدیث:1738، ط:المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:’’ حضرت ابی برزہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: جو شخص کسی ایسی عورت کی تعزیت کرے جس کا لڑکا مر گیا ہو یا گم ہوگیا ہو، تو اس کے صلہ میں اسے جنت میں  ایک عمدہ جوڑا پہنایا جائے گا۔‘‘

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"(وعن أبي برزة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من عزى ‌ثكلى) الثكل فقدان الولد، والرجل ثكلان أي: من عزى المرأة التي مات ولدها، أي: التي لا يعيش لها ولد. (كسي) بصيغة المجهول. (بردا) أي: ألبس ثوبا عظيما. (في الجنة، رواه الترمذي. وقال: هذا حديث غريب) قال ميرك: وليس إسناده بالقوي كذا في مبدأ الترمذي".

(ج:3، ص:1241، رقم الحديث:1738، ط:دار الفكر، بيروت)

"حدثنا أحمد بن عيسى البلدي، ثنا أبو فروة يزيد بن محمد بن يزيد بن سنان، ثنا أبي محمد بن يزيد بن سنان، عن أبيه يزيد، قال: حدثني إسحاق بن راشد، عن رجل، من أهل البصرة يقال له أبو نصيرة، قال: سمعت أبا رجاء العطاردي، عن أبي بكر الصديق، أن موسى بن عمران، قال: يا رب، ما لمن عاد مريضا؟ قال: «أوكل به ملكين يعودانه في قبره حتى يبعث» . قال: فما لمن يتبع جنازة؟ قال: «تنصرف معه الملائكة براياتها إلى الموقف» . قال: يا رب، فما لمن عزى ثكلى؟ قال: «أظله بظلي يوم لا ظل إلا ظلي»."

(الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين، باب فضل من تبع الجنازة مختصرا، ص:121، رقم الحديث:408، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

ترجمہ: ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ "اے رب: جو کسی مریض کی عیادت کرے، اس کا کیا اجر ہے؟ اللہ نے فرمایا کہ "میں اس کےلیے دو فرشتے مقرر کروں گا جو قیامت تک قبر میں اس کی عیادت کریں گے"، (یعنی قبر میں اس کے رفیق ہوں گےاور تسلی کا باعث بنیں گے) عرض کیا کہ "جو جنازہ کے ساتھ چلے اس کےلیے کیا اجر ہے؟ فرمایا کہ "فرشتے اپنے اپنے جھنڈے لے کر میدانِ محشر تک اس کے ساتھ چلیں گے"، عرض کیا کہ "اے رب: جو بچے کی فوتگی یا گمشدگی کی بناءپر پریشان عورت کی تعزیت کرے، اس کےلیے کیا اجر ہے؟ رب تعالیٰ نے  فرمایاکہ "میں اسے اپنی سایۂ رحمت میں جگہ دوں گا جس دن میرے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا"۔‘‘

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولا بأس بنقله قبل دفنه وبالإعلام بموته وبإرثائه بشعر أو غيره، لكن يكره الإفراط في مدحه لا سيما عند جنازته، لحديث «من تعزى بعزاء الجاهلية» وبتعزية أهله وترغيبهم في الصبر.

و في الرد: (قوله: وبتعزية أهله) أي تصبيرهم والدعاء لهم به. قال في القاموس: العزاء الصبر أو حسنه. وتعزى: انتسب. اهـ. فالمراد هنا الأول، وفيما قبله الثاني فافهم. قال في شرح المنية: وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن، لقوله عليه الصلاة والسلام «من عزى أخاه بمصيبة كساه الله من حلل الكرامة يوم القيامة» رواه ابن ماجه وقوله عليه الصلاة والسلام «من عزى مصابا فله مثل أجره» رواه الترمذي وابن ماجه. والتعزية أن يقول: أعظم الله أجرك، وأحسن عزاءك، وغفر لميتك. اهـ"

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:239، ط:ايج ايم سعيد)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144511102564

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں