بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نومسلمہ کا غیر مسلم والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا


سوال

ایک خاتون جو ابھی حال ہی میں الحمدللہ! دینِ اسلام میں داخل ہوئی ہے، اس سے پہلے مذکورہ خاتون عیسائی مذہب پر قائم تھی، اسلام کے مطالعے کے بعد اپنی خوشی اور رضامندی سے بلا جبر و اکراہ آپ کے دارالافتاء میں حاضر ہوکر کلمہ طیبہ پڑھا اور اسلام کے نعمت سے مالامال ہوئی۔

مذکورہ خاتون کے والدین حیات ہیں اور وہ اپنے عیسائی مذہب پر قائم ہیں۔ خاتون نے اپنے والدین کو اپنے مسلمان ہونے کی خبر نہیں دی، اگر انہیں معلوم ہو جائے تو سخت مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ خاتون ایک مسلمان دین دار شخص کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے، تاکہ اس کی عملی زندگی کا آغاز ہو؛ کیوں کہ یہ خاتون غیر شادی شدہ ہے۔ اب اگر یہ خاتون اپنے والدین کو اپنے اسلام قبول کرنے اور اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے کی خبر دے تو یقیناً سخت مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا، لہٰذا اگر یہ خاتون اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اور انہیں بتلائے بغیر اس شخص کے ساتھ نکاح کرلے تو کیا یہ بات والدین کی نافرمانی کہلائے گی؟ کیا اس عمل سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے؟ اس خاتون کو یہ خوف ہے کہ میرے والدین میرے لیے بد دعا کریں گے اور یہ والدین کی نافرمانی کہلائے گی اور احادیث کی رو سے والدین کی نافرمانی کی سزا اللہ تعالیٰ کی دنیا میں بھی دے دیتے ہیں، تو اس سلسلے میں آپ علمائے کرام کی رہنمائی درکار ہے کہ مذکورہ نومسلمہ عورت جو کہ عاقلہ بالغہ ہے، اس کا والدین کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شرعًا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ والدین اگرچہ کافر ہوں (تب بھی)  ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ہے، لیکن اگر  وہ دینِ اسلام قبول کرنے سے روکیں یا شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو  ان کی اطاعت جائز نہیں ہے، بلکہ باعثِ گناہ ہے، ایسے موقع پر حکمت ومصلحت سے ان  کی بات ٹال  دینی  چاہیے،  چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"وَإِنْ جاهَداكَ عَلى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُما وَصاحِبْهُما فِي الدُّنْيا مَعْرُوفاً وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنابَ إِلَيَّ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ." [سورة لقمان، رقم الآية:15]

ترجمہ: ”اور اگر تجھ پر دونوں (والدین) اس بات کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھیرا جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو، تو تو ان کا کچھ کہنا نہ ماننا، اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کرنا، اور اسی کی راہ پر چلنا جو میری طرف رجوع ہو، پھر تم سب کو میرے پاس آنا ہے، پھر میں تم کو جتلا دوں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔“ (از بیان القرآن)

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ عورت عاقلہ بالغہ ہے اور  اپنی رضامندی سے دینِ اسلام  قبول کرچکی ہےتو  اس کے لیے اپنے مرضی سے کسی  دیندار باوفا قدردان مسلمان کے ساتھ نکاح کرنا شرعًا جائز ہے، اس کے لیے والدین کی رضامندی ضروری نہیں ہے اور یہ شرعًا والدین کی نافرمانی نہیں کہلائے گا۔ تاہم مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ اسلام  قبول کرنے اور  نکاح  کرنے  کی  قانونی کاروائی مکمل  کرلے؛  تاکہ بعد میں قانونی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔ 

اگر مذکورہ خاتون کے گھر والے اس کے اسلام لانے اور کسی مسلمان سے اس کی شادی ہونے پر راضی نہیں اور انہیں علم ہونے پر سخت مخالفت کا اندیشہ ہو، تو اس سے پریشان نہ ہو، بلکہ دعا کرتی رہے، امید ہے کہ اللہ  تعالیٰ خیر کا کوئی راستہ نکالے گا۔  اور  اگر مذکورہ خاتون کے والدین اس سلسلے میں اسے بد دعا دیں تو اس  سے بھی پریشان نہ ہو؛ کیوں کہ اسلام تمام انسانیت  کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت ہے اور  اس کی دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے اور نکاح کرنا بھی ایک مسلمان عورت کا حق ہے۔ البتہ مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتی رہے، اور ان کی خدمت کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الأيم ‌أحق ‌بنفسها من وليها، والبكر تستأذن في نفسها، وإذنها صماتها."

(مسند أحمد، من أخبار عثمان بن عفان رضي الله عنه، رقم الحدیث:2163، ج:4، ص:58، ط:مؤسسة الرسالة بیروت)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے نکاحی عورت اپنے ولی (سر پرست) کے بالمقابل اپنے (نکاح کے) بارے میں فیصلہ کرنے کا زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری (لڑکی) سے اس کی شادی کی اجازت لی جائے گی اور اس کی اجازت (اس سے پوچھے جانے پر) اس کا خاموش رہنا ہے۔“

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا."

(کتاب النکاح، باب الولي، ج:3، ص:55، ط:ايج ايم سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض." 

(کتاب النکاح، فصل ولاية الندب والاستحباب في النکاح، ج:2، ص:247، ط:ايج ايم سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ولا ولاية لصغير ولا مجنون ولا لكافر على مسلم ومسلمة، كذا في الحاوي. ولا لمسلم على كافر وكافرة، كذا في المضمرات."

(کتاب النکاح، الباب الرابع في الأولياء في النكاح، ج:1، ص:284، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144609100970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں