بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

نزولِ وحی کی صورتیں


سوال

نزولِ وحی کی چار صورتیں کون کون سی ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  بنیادی طور پر وحی اور نزولِ وحی کی تین صورتیں ہیں:1. وحی قلبی۔ 2. کلامِ الہٰی۔ 3.وحی ملکی

قرآنِ کریم کی درج ذیل آیت میں ان ہی تین اقسام کی طرف اشارہ ہے:

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

[سورۃ الشورىٰ رقم الآية:51]

ترجمہ: اور کسی بشر کی (حالت موجودہ میں) یہ شان نہیں کہ الله تعالیٰ اس سے کلام فرماوے، مگر (تین طریق سے) یا تو الہام سے یا حجاب کے باہر سے یا کسی فرشتے کو بھیج دے کہ وہ خدا کے حکم سے جو خدا کو منظور ہوتا ہے پیغام پہنچا دیتا ہے، وہ بڑا عالیشان بڑی حکمت والا ہے۔ (از بیان القرآن)

مندرجہ بالا صورتوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

1۔   وحی قلبی: اللہ تعالیٰ کسی فرشتے وغیرہ کے واسطے کے بغیر براہِ راست  کوئی بات نبی کے دل میں ڈال دے۔ پھر اس کی دو صورتیں ہیں:

(1) بیداری میں۔ (2) خواب میں۔

2۔ کلامِ الہٰی: یعنی اللہ تعالیٰ براہِ  راست نبی کو اپنی ہم کلامی کا شرف عطا فرمائے، اس میں بھی فرشتے یا کسی کا واسطہ نہیں ہوتا،  نبی کو مخلوقات کی آواز سے جداگانہ آواز سنائی دیتی ہے،  جس کا ادراک عقل کے ذریعے ممکن نہیں۔ یہ وحی کی سب سے اعلیٰ قسم ہے۔

3۔  وحی ملکی: یعنی اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کے ذریعے اپنا پیغام اپنے نبی کی جانب بھیجتا ہے اور وہ فرشتہ پیغام پہنچاتا ہے۔ پھر اس کی تین صورتیں ہیں:

(1)  کبھی فرشتہ نظر نہیں آتا، صرف اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔

(2)  بعض مرتبہ فرشتہ کسی انسان کی شکل میں آتا ہے۔

(3) فرشتہ کبھی اپنی اصلی صورت میں  آتا ہے۔

اس کے علاوہ نزولِ وحی کی ایک صورت ”صلصلۃ الجرس“ بھی ہے، اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کی آواز آیا کرتی تھی جیسی کہ گھنٹیاں بجنے سے پیدا ہوتی ہے، وحی کی یہ صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ بھاری تھی، شدید سردی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے۔

اسی طرح ایک صورت ”نفث فی الروع“ کی ہے، اس صورت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کسی بھی شکل میں سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ مبارک میں کوئی بات القاء فرما دیتے تھے۔

باقی تفصیل کے لیے ”علوم القرآن“ از مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم  (ص: 37 تا 45) دیکھیے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عائشة أم المؤمنين أنها قالت: أول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح."

(الصحيح للبخاري، باب: كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحديث:3، ج:1، ص:4، ط:دار اليمامة دمشق)

ترجمہ: ”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی ابتداء نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا۔“

"عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها: أن الحارث بن هشام رضي الله عنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، كيف يأتيك الوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:أحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس، وهو أشده علي، فيفصم عني وقد وعيت عنه ما قال، وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا، فيكلمني فأعي ما يقول. قالت عائشة رضي الله عنها: ولقد رأيته ينزل عليه الوحي في اليوم الشديد البرد، فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا."

(الصحيح للبخاري، باب: كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم الحديث:2، ج:1، ص:4، ط:دار اليمامة دمشق)

ترجمہ: ”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبھی تو مجھے گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی ہے، اور وحی کی یہ صورت میرے لیے سب سے زیادہ سخت ہوتی ہے، پھر جب یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو جو کچھ آواز نے کہا ہوتا ہے، مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے، اور کبھی فرشتہ میرے سامنے ایک مرد کی صورت میں آتا ہے، اور مجھ سے بات کرتا ہے، پس میں ان کی باتیں یادکرلیتا ہوں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سخت جاڑوں کے دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، (ایسی سردی میں بھی) جب وحی کا سلسلہ ختم ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پسینہ سے شرابور ہوچکی ہوتی تھی۔“

"أن جبريل عليه السلام ‌ألقى ‌في ‌روعي أن أحدا منكم لن يخرج من الدنيا حتى يستكمل رزقه."

(المستدرك للحاكم، كتاب البيوع، رقم الحديث:2136، ج:2، ص:5، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

ترجمہ:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک حدیث میں) فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ تم میں سے کوئی دنیا سے نہیں جائے گا، تاوقتیکہ وہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔“

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں