بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

استاد کا جبراً اپنے شاگردوں سے قرض وصول کرنا


سوال

 کیا اپنے اسٹوڈنٹس کو استاد ہونے کی حیثیت سے حجت جتلا کر ان سے پیسے بطور قرض لینا جائز ہوگا؟ نیز رقم نرسری تا دہم ہر بچے سے لی گئی ہے،  چاہے کوئی دینا چاہتا تھا یا نہیں ، سب کو مجبور کیا گیا ہے دینے کےلیے ،  اور لینے والے نے یہ کہہ کر لیا ہے کہ میں نے علماء سے اجازت لی ہے۔ آپ کیا فرماتے ہیں اس بارے میں ؟ کیوں کہ میرا دل تو نہیں مانتا کہ ہمارا دین اس طرح اسٹوڈنٹ سے ان کی مرضی کے بغیر رقم لینے کی اجازت دے!

جواب

واضح رہے کہ  بغیر کسی سبب شرعی کے کسی کا مال اس کی  دلی رضامندی کے بغیر لیناجائز نہیں ہے اور قرض کا معاملہ بھی باہمی خوشی اور رضامندی سے ہوتا ہے یعنی قرض دینے والا اپنی دلی  خوشی سے قرض دے اور قرض دینے کا اہل  بھی ہو یعنی عاقل اور بالغ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ استاد کا اپنے شاگردوں سے ان کی رضامندی  اور خوشی کے بغیر قرض مانگنا اور استادہونے کا احساس جتا کر ذکر کردہ طریقے پر قرض  لینا جائز نہیں ہے اور مذکورہ استاد پر لازم ہے کہ جس جس سے جو رقم قرض کے نام پر  لی ہے وہ ان کو واپس کرے  اور اگر سب نے خوشی سے قرض دیابھی ہے تو  ان میں جو نابالغ بچے ہیں، وہ قرض دینے کے اہل ہی نہیں ہیں ان کی دی ہوئی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہے،اور اگر ان بچوں سے کہلوا کر ان کے والدین سے لیا ہو، تب بھی یہ استاد کے شایان شان ہرگز نہیں کہ اس طرح قرض مانگے، نیز اس ذاتی غرض  کے لیے قرض مانگتے ہوئے علماء کا حوالہ دینا کہ علماء سے اجازت لی ہے، قطعاً نامناسب ہے۔لہذا  مذکورہ استاد کو چاہیے  کہ  ان سے لی ہوئی رقم ان کو واپس کرے۔

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"(وعن أبي حرة) بضم الحاء المهملة وتشديد الراء (الرقاشي) بفتح الراء وتخفيف القاف (عن عمه) لم يذكره المؤلف لكن جهالة الصحابي لا تضر في الرواية (قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ألا ") بالتخفيف للتنبيه (" لا تظلموا ") أي: لا يظلم بعضكم بعضا كذا قيل، والأظهر أن معناه: لا تظلموا أنفسكم، وهو يشمل الظلم القاصر والمعتدي (" ألا ") للتنبيه أيضا وكرره تنبيها على أن كلا من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه، والتخصيص لديه (" لا يحل مال امرئ ") أي: مسلم أو ذمي (" إلا بطيب نفس ") أي: بأمر أو رضا منه. رواه البيهقي في " شعب الإيمان "، والدارقطني في " المجتبى ."

(کتاب البیوع، باب الغصب و العاریة، ج:5، ص:1974، ط:دار الفکر بیروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) الذي يرجع إلى المقرض فهو أهليته للتبرع؛ فلا يملكه من لا يملك التبرع، من الأب، والوصي، والصبي، والعبد المأذون، والمكاتب؛ لأن القرض للمال تبرع ألا ترى أنه لا يقابله عوض للحال؛ فكان تبرعا للحال، فلا يجوز إلا ممن يجوز منه التبرع، وهؤلاء ليسوا من أهل التبرع؛ فلا يملكون القرض."

(کتاب القرض، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:394، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

درر  الحکام شرح مجلۃ الاَحکام میں ہے:

"لا يجوز لأحد ‌أن ‌يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف «لا يحل لأحد ‌أن ‌يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصد السرقة هازلا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قد ارتكب الفعل المحرم شرعا؛ لأن اللعب في السرقة جد فعلى ذلك يجب أن ترد اللقطة التي تؤخذ بقصد امتلاكها أو المال الذي يؤخذ رشوة أو سرقة أو غصبا لصاحبها عينا إذا كانت موجودة وبدلا فيما إذا استهلكت ."

(مقدمة كتاب درر الحكام محتوية على مقالتين، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:97، ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں