نانی نے اپنی نواسی کو ایک گائے کا بچہ دیا، جس کی عمر ایک سال تھی ،اب وہ بڑی گائے بن گئی، جس سے دو بچے پیدا ہوئے ہیں، گائے بعد میں مرض کی وجہ سے ذبح کرنی پڑی ،اس کی قیمت47 ہزار سات سو روپے بچی کے والد نےاپنی بیوی کو اداکی ، اب اس گائے کےدو بچے بیل اور گائے کی صورت میں ہیں،بچی کی والدہ نے خلع لے لیا ہے، اب بچی کے نانا نانی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ بیل اور گائے اس گائے سے پیدا ہوئے تھےجو ہم نےدی تھی،لہذا یہ دونوں ہمیں واپس دےد و،ایک مفتی صاحب نے بتایا کہ یہ گائے اور بیل نانا اور نانی ہی کے ہوں گے، جب کہ بچی والد کی کفالت میں ہے ۔
اب آپ بتائیں ،گائے کے دو بچے جو بیل اور گائے کی صورت میں موجود ہیں، کیاناناونانی واپس لینے کے حق دار ہیں؟
واضح رہے کہ رشتہ داروں کو کوئی چیز تحفہ دینے کے بعد،اسے واپس لینا شرعاًممنوع ہے،لہذا صورت مسئولہ میں نانا،اورنانی کےلیےاپنی نواسی سے مذکورہ بیل وگائے طلب کرنے کی شرعاًاجازت نہیں ہوگی، نواسی مذکورہ دونوں جانور کی مالک ہے۔
درر الحکام شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"المادة 852 الهبة للطفل ،إذا وهب أحد شيئا لطفل تتم الهبة بقبض وليه أو مربيه."
(الكتاب السابع الهبة،الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة،المادة: 852 الهبة للطفل،ج:2،ص:422،ط:دار الجيل)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم .... (ومنها القرابة المحرمية)، سواء كان القريب مسلما أو كافرا، كذا في الشمني ولا يرجع في الهبة من المحارم بالقرابة كالآباء والأمهات، وإن علوا والأولاد، وإن سفلوا وأولاد البنين والبنات في ذلك سواء".
(كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة، ج: 4، ص: 385، ط: رشيدية)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"ثم الهبة والصدقة قد تكون من الأجانب، وقد تكون من القرابات، وذلك أفضل؛ لما فيه من صلة الرحم، وإليه أشار النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «أفضل الصدقة على ذي الرحم الكاسح». ولهذا بدأ الكتاب بحديث رواه عن إبراهيم عن عمر رضي الله عنه قال: من وهب لذي رحم محرم هبة؛ فقبضها؛ فليس له أن يرجع فيها. وذكر بعد هذا عن عطاء، ومجاهد عن عمر رضي الله عنه قال من وهب هبة لذي رحم محرم؛ فقبضها: فليس له أن يرجع فيها، ومن وهب هبة لغير ذي رحم: فله أن يرجع فيها - ما لم يثب منها -. والمراد بقوله: ذي رحم محرم: قد ذكر ذلك في بعض الروايات، وهذا لأنه يفترض صلة القرابة المتأبدة بالمحرمية دون القرابة المتحرزة عن المحرمية، وهو كما يتلى في القرآن في قوله سبحانه وتعالى {واتقوا الله الذي تساءلون به والأرحام} [النساء: 1] أي: اتقوا الأرحام أن تقطعوها، وقال الله تعالى: {وتقطعوا أرحامكم} [محمد: 22] {أولئك الذين لعنهم الله فأصمهم وأعمى أبصارهم} [محمد: 23]."
(کتاب الهبة، ج: 12، ص: 49، ط: دار المعرفة بيروت لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607101678
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن