بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا پردہ نہ کرنا گناہ کبیرہ میں شامل ہے یا نہیں؟


سوال

عورتوں کا پردہ نہ کرنا گناہ کبیرہ میں شامل ہے یا نہیں؟

جواب

جس گناہ کے بارے میں شریعت میں کوئی وعیدوارد ہوئی ہو  وہ گناہ کبیرہ کہلاتا ہے، یا ایسا گناہ جو صغیرہ ہو لیکن اس پر اصرار کیا جائے تو وہ بھی کبیرہ بن جاتا ہے، شریعت اسلامی چوں کہ مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس میں ہر اس کام سے منع کیا گیا ہے جو فی الحال یا آئندہ معاشرے میں یا کسی کی ذاتی زندگی میں فساد کا باعث بن سکتا ہے، اور اس کے لیے شریعت نے ایسی حکمتِ عملی اور ایسا لائحۂ عمل دیا ہے کہ اگر اس پر عمل پیرا ہوا جائے تو نہ صرف یہ کہ انسان اپنی زندگی میں سکون و اطمینان پاتا ہے بلکہ پورا معاشرہ فسادات سے پاک ہو جائے گا۔

 عورت کا بے پردہ ہونا نہ صرف یہ خود عورت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ پورے معاشرے میں فساد کا باعث بنتا ہے، اگر ایک عورت بے پردہ گھر سے نکلتی ہے تو خود گناہ گار ہونے کے ساتھ ساتھ جتنے لوگوں کی نظریں اس پر پڑتی ہیں ان سب کے گناہ کا بار بھی اس (عورت) پر آتا ہے۔

مرد و عورت میں فطری طور پر ایک دوسرے کی طر ف میلان پایا جاتا ہے، اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ جب اجنبی مرد و عورت تنہا ہو جائیں تو تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے جو ان سے گناہ کروانے کی تاک میں رہتا ہے، اور ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو شیطان کا جال فرمایا ہے کہ شیطان مردوں کو عورتوں کے ذریعے سے پھانستا ہے، ایسی صورتِ حال میں عورت کا بے پردہ ہوکر اجنبیوں کے سامنے آنا، بازاروں، دکانوں، پارکوں، ہسپتالوں میں جانایا ایسی جگہوں میں کام کرنا اور سواریوں پر بے پردہ سوار ہوکر سڑکوں پر آنا جانا سب فسادات کی جڑ اور اپنے گناہ کے ساتھ مردوں کو بد نظری کے گناہ  کی پھٹکار میں ڈالنے اور شیطانی جال پھیلانے کی ہی صورت ہے، بے پردگی کو وہ ذرہ  کہا جاسکتا ہے جو اپنی ظاہری صورت میں تو بہت ہلکا سا لگتا ہے، لیکن حقیقت میں اس پر مرتب ہونے والے گناہ بد نظری سے شروع ہوکر زنا تک چلے جاتے ہیں، جو پوری انسانیت کے نسبی امتیاز کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے واضح ارشاد فرمادیا  کہ مرد اپنی نظروں کو اجنبی عورتوں (پر پڑنے) سے بچائے رکھیں، اور عورتوں کو  ایک طرف اجنبیوں سے نظریں بچائے رکھنے کا حکم  دیا، اور ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ اپنی زینت غیر مردوں کے سامنے ظاہر نہ کریں، حتی ٰ کہ اپنے محارم کے سامنے بھی صرف ان اعضاء کے کھولنے کی اجازت ہے جو انہیں گھر کے کام کاج کے دوران کھلے رکھنے پڑتے ہیں (مثلاً: ہاتھ، پاؤں، چہرہ وغیرہ) ، اس کے علاوہ عورت کو پورا بدن چھپانے کا حکم ہے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بے پردہ عورتوں کے بارے میں سخت ارشادات فرمائے ہیں۔

بہر حال عورت کا پردہ نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے،ایسی عورتیں جو بے پردگی کے گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہیں وہ اس سے فوراً سچے دل سے توبہ  و استغفار کریں، اور آئندہ کے لیے پردے کا اہتمام کریں۔

اسی طرح جو عورتیں بے  پردہ رہتی ہیں ان کے گناہ کا وبال ان کے ساتھ ساتھ ان مردوں  پر بھی پڑے گا جن کی ماں، بہن، بیوی، بیٹی یا ان کے ماتحت رہنے والی کوئی بھی عورت بے پردگی  میں مبتلا ہے اور وہ انہیں روکتے نہیں ہیں۔

"الترغيب والترهيب للمنذري" میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يكون في آخر أمتي رجال....... نساؤهم كاسيات عاريات على رؤوسهن كأسنمة البخت العجاف العنوهن فإنهن ملعونات رواه ابن حبان في صحيحه واللفظ له والحاكم وقال صحيح على شرط مسلم."

(ترجمہ)" اس امت کے آخری لوگوں میں کچھ ایسے مرد ہوں گے۔۔۔۔۔۔ان کی عورتیں کپڑے پہنے ہوئے (ہونے کے باوجود) ننگی ہوں گی ان کے سر لاغر بختی اونٹوں کی طرح کوہان نما ہوں گے ان پر لعنت بھیجو اس لیے کہ ان پر (اللہ کی طرف سے ) پھٹکار نازل ہوئی ہے۔"

" عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم صنفان من أهل النار لم أرهما قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس نساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهن كأسنمة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا، رواه مسلم وغيره."

(ترجمہ) "دو قسم کے لوگ آگ والوں میں سے ہیں جن کو ابھی تک میں نے نہیں دیکھا (ایک ان میں سے) کچھ لوگ ہوں گے جن کے ہاتھوں میں گائے کی دم کی طرح کے کوڑے ہوا کریں گے جن سے وہ لوگوں کو (ظلما) ماریں گے، اور (ان میں سے دوسری قسم) وہ عورتیں ہیں جو کپڑے پہنے ہوئے (ہونے کے باوجود) ننگی ہوں گی، (دوسروں کو) مائل کرنے والی ہوں گی (اور) خود (بھی) مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح جھکے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ (ہی) جنت کی خوشبو (تک بھی)سونگھ سکیں گی حالاں کہ جنت کی خوشبو اتنے اتنے فاصلے سے سونگھی جا سکے گی۔"

" وعن عائشة رضي الله عنها أن أسماء بنت أبي بكر دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليها ثياب رقاق فأعرض عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال يا أسماء إن المرأة إذا بلغت المحيض لم يصلح أن يرى منها إلا هذاوأشار إلى وجهه وكفيه رواه أبو داود."

(ترجمہ) "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر (ایک مرتبہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں (ایسے) آئیں کہ ان کے کپڑے باریک تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر دیا اور چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اسماء! جب عورت بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے ان (چہرے اور ہتھیلیوں) کے علاوہ اعضاء نظر نہیں آنے چاہییں۔"

(کتاب النکاح وما یتعلق به، الترهيب من لبس النساء الرقيق من الثياب التي تصف البشرة، 3 / 803، ط:مکتبة المعارف للنشر والتوزیع بریاض)

صحیحِ بخاری میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ألا كلكم راع وكلكم مسئول  عن رعيته."

(ترجمہ) "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ما تحتوں (کی آخرت کی فکر)کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا۔"

(کتاب الأحكام، باب قول اللہ "أطيعوا الله وأطيعوا الرسول" 2 / 1057، ط:قدیمی)

"شرح العقائد النسفی"میں ہے:

"والکبیرة قد اختلفت الروایات فیھا فروی ابن عمر رضی اللہ عنھما أنھا تسعة: الشرک باللہ، وقتل النفس بغیر حق، وقذف المحصنة، والزنا، والفرار عن الزحف، والسحر، وأکل مال الیتیم، وعقوق الوالدین المسلمین، والإلحاد فی الحرم، وزاد أبو ھریرۃ رضی اللہ عنہ أکل الربا وزاد علي رضي اللہ عنه السرقة وشرب الخمر کل ما کان مفسدته مثل مفسدۃ شيء مما ذکر أو أکثر منه وقیل کل ما توعد علیه الشارع بخصوصه وقیل کل معصیة أصر علیھا العبد فھی کبیرۃ وکل ما استغفر عنھا فھی صغیرۃ."

(القول في الکبیرۃ، ص:104، ط:دارإحیاء التراث العربي بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510101266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں